ذوالحج کا عشرہ مبارک، حج کی بابرکت ساعتیں اور عید الا ضیٰ کے با سعادت دن گزرے، ہر گھر، گلی، محلے، قصبے، شہر، مسجد، مدرسے، خانقاۂ، تعلیمی اور روحانی سلاسل سے پُرشور، پُر جوش اور پُررنگ دعاؤں کا سلسلہ خوب سے خوب تر انداز میں جاری رہا۔ حج کے عالمگیر موقع اور اجتماع پر ہمیشہ کی طرح لرزتے آنسو ؤں اور بے تاب جذبوں سے بہت سی دعائیں مانگی گئیں۔کچھ لب دعائیں مانگ کر خاموش ہو گئے اور کچھ دل تاحال اسی تان پر ہیں مگر عملاً حالات جوں کے توں ہیں۔فلسطین کے مظلوم مسلمانوں، معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگ افراد پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری جاری ہے، عمارات کی عمارات ملبے کا ڈھیر بن رہی ہیں اور اِدھرریت میں سر دبائے اور حقائق سے نظریں چرائے صرف دعاؤں اور بددعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔
ویسے بھی ہمارے ہاں مدتو ں سے دعاؤں پر دعائیں مانگنے کا عمل اپنی لے پرہے۔اور دعائیں بھی وہ، جنہیں نہ عمل کی کوالٹی حاصل ہے، نہ حضوری قلب کا وہاں کوئی گزر ہے اور نہ موقع محل کی کوئی بات ہے۔ بس ایک تکرار اور ایک رسمی سا سلسلہ ہے جو لمبی لمبی دعاؤں پر مشتمل ہے جس میں کہیں کفر کو برباد کیا جاتا ہے تو کہیں مسلمانوں کو آباد۔۔۔! ان رسمی اور بے روح دعاؤں سے نہ کفر کی بربادی ہو رہی ہے اور نہ مسلمانوں کی آبادی ہو رہی ہے۔ بس ایک روٹین ہے جو جاری و ساری ہے۔ ان سب دعاؤں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ یہ کردیں، وہ کر دیں، یہ دے دیں، وہ دے دیں، اِس سے ملادیں، اُس سے بچالیں، ۔۔۔۔ دوسرے الفاظ میں ہماری خواہش ودعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کرنا ہے آپ ہی کریں اور آپ ہی نے کرنا ہے، نہ ہمیں کچھ کرنا پڑے اور نہ ہی ہم نے کچھ کرنا ہے۔۔۔!
دعاؤں اور ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس بھی اپنی مخلوق کی طرف سے دعائیں مانگنے کو پسند کرتی ہے مگر کیا صرف دعاؤں پر ہی انحصار کافی ہے۔دعا کے ساتھ عمل کا جوڑا مکمل ہو تاہے اور بغیر قدم اٹھائے، اپنے حصے کا کام کیے صرف دعاؤں سے کام چلنا ممکن نہیں۔ یہ اصول فطرت ہی نہیں کہ عمل سے ہاتھ اٹھا لیے جائیں اور صرف دعاؤں سے کام چلے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق میدان عمل میں آنا ہوگا اور اپنے اپنے اختیارات، صلاحیت اور طاقت کی حد تک اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میدان جنگ کی بات تو ایک طرف ہمیں تو ہر حال میں تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ربانی ہے: ”تم ہلکے ہو کہ بوجھل نکلو اللہ کی راہ میں۔۔۔“، اسی طرح سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفعال میں دشمن کے مقابلے میں اپنے گھوڑے (طاقت) تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سورۃ النجم میں ارشادگرامی ہے: ”انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔“جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے محنت کاروں کو اپنا حبیب قرار دیا ہے۔۔۔اس سے عمل کا مقام پوری طرح سے واضح ہو جاتا ہے۔۔۔!
علامہ اقبالؒ نے عمل ہی سے زندگی کے جنت اور جہنم بننے کی بات کی ہے تو کہیں درویشوں کو خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ تھامس فریڈ مین کہتا ہے کہ ”افریقہ کے جنگلوں میں روزایک ہرن اس خیال سے جاگتا ہے کہ اسے شیر کا نوالا بننے سے بچنے کے لیے اس سے تیز دوڑنا ہے اور انہی جنگلوں میں ہر روز ایک شیر اس خیال سے جاگتا ہے کہ اسے ہرن کو اپنا شکار بنانے کے لیے اس سے تیز دوڑنا ہے، ورنہ وہ بھوکا مر جائے گا۔۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ہرن ہیں یا شیر، جب سورج نکلتا ہے تو آپ کو اپنی بقا کی خاطر ڈورنا پڑتا ہے۔“
اس لیے اپنی حیات اور بقا کیے لیے، اس ”دارالعمل“ میں دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے جملہ وسائل بھی بروئے کار لانا ہونگے تو ہی بات بنے گی۔ گھر میں بیٹھ کر دعائیں کرنے سے میدان فتح نہیں ہونگے۔ کشمیر آزاد نہیں ہوگا اور نہ ہی فلسطینی مسلمان بھائیوں کی مدد ہو گی بلکہ اس کے لیے میدان عمل میں نکلنا ہو گا۔ بغیر کوشش کیے اور بغیر اپنے اختیار کا قدم اُٹھائے، کس طرح ممکن ہے کہ سفر طے ہو۔ دعاؤں میں ہم کب سے کیا کیا مانگ رہے ہیں۔۔۔! مساجد میں کفار کی تباہی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں مگر ان دعاؤں سے آج تک کتنے کافر ہلاک ہوئے۔ اس کے لیے میدان حرب میں صف بندی کرنا ہوگی۔ بدر کے اصول کو دیکھنا ہو گا، غزوہ اُحد سے سبق لینا ہو گا اور غزوہ خندق کی حکمت و دانش سے سیکھنا ہو گا۔ ہمیں دیوانہ وار محنت، مشقت اور جدوجہد کرنا ہو گی۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم کے اصول کو اپنانا ہو گا، اپنی انفرادی پسند و نا پسند سے نکل کرایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا، بند مٹھی کی طرح عمل کرنا ہو گا، اپنی جمعیت کی طاقت سے اقوام عالم کو بتانا ہوگا کہ ہم زندہ قوم ہیں اور زندگی کے ثبوت کے لیے زندہ رہنے والے کام کرنا ہونگے۔۔۔!
اسلامی دعاؤں پر غور کیا جائے تو دکھائی دے گا کہ وہ موقع محل کے مطابق مانگی جانے والی دعائیں ہیں۔ مسجد میں داخل ہونے کی دعا کا جواز مسجد میں داخلہ ہے۔مسجد سے باہر نکلے کی دعا کے لیے مسجد سے قدم باہر نکا لنا ضروری ہے۔سیڑھیا ں چڑھنے کی دعا، سیڑھیاں اترنے کی دعا سے مختلف ہے۔ اسی طرح پانی پینے کی دعا، کھانا کھانے کی دعا، نئے کپڑے پہننے کی دعا، نئے چاند کی دعا، نئے سال کی دعا۔۔۔۔ گویا کہ ہر دعا کا ایک موقع محل ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ جس جدوجہد، کوشش اور دعا کا تعلق میدان عمل سے ہو، وہ کامیابی، سفر اور مسافت محض مصلے پر بیٹھ کر دعاؤں سے ہی طے ہو جائے۔ کامیابی کے لیے یہ اصول فطر ت ہی نہیں۔ چونکہ ہم عمل میں پیچھے ہیں اس لیے اقوام عالم سے پیچھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دعا کے ساتھ حسب حال عمل کے اصول کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوا جائے تو ہی آگے بڑھنے کی راہ ملے کیونکہ اسلام بے عملی نہیں بلکہ مجسم عمل کا نام ہے۔۔۔!
تبصرے بند ہیں.