سانحہ بہاولنگر کا اسلامیہ یونیورسٹی سے تعلق؟

242

بہاولنگر کے علاقہ چک مدرسہ کی حدود میں ایک واقعہ پیش آیا جو تاریخ میں سانحہ بہاولنگر کے نام سے درج ہوگیا آپ سب اس واقعے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جس میں پولیس اور پاک فوج آمنے سامنے آ گئیں اور پھر ملکی تاریخ کا افسوسناک مگر انوکھا واقعہ رونما ہوگیا اس سے پہلے کہ میں اس واقعہ اور اس کے حل پہ بات کروں آپ کو ماضی قریب کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ اسی بہاولنگر کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بہاولپور کی تاریخی جامعہ اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک جعلی سیکس ویڈیو سکینڈل "لانچ” کیا گیا اس وقت کے ڈی پی او بہاولپور سید عباس شاہ کی زیر نگرانی وہ "آپریشن” مکمل کیا گیا۔ لودھراں سے تیسرے درجے کا ایک یوٹیوبر بلایا گیا اسے پولیس فورس کی نگرانی میں اسلامیہ یونیورسٹی میں داخل کرایا گیا اس نے مرکزی گیٹ کے اندر کھڑے ہوکر پروگرام کیا۔ پولیس اور اس کے ٹائوٹوں کے ذریعے اس جھوٹ کو ثواب سمجھ کر پھیلایا گیا۔ ماؤں۔ بہنوں اور بیٹیوں پر وہ تہمت لگائی گئی جس کے داغ مٹائے نہیں مٹتے۔ اس سارے واقعے کی "اصل” وجہ وائس چانسلر محترم ڈاکٹر اطہر محبوب سے ڈی پی او بہاولپور اور ایک سیاسی شخصیت کا عناد اور بلا وجہ کا ذاتی اختلاف بنا کہ کہیں ان کو مدت ملازمت میں توسیع نہ مل جائے۔ اپنی انا کی تسکین کے لئے اسلامیہ یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر میجر (ر) اعجاز پر منشیات ڈال کر انہیں جعلی مقدمے میں حوالات بند کردیا گیا۔ میجر صاحب شریف انسان تھے یا پھر ان کے ادارے نے
انہیں "اپنا” ماننے سے انکار کردیا تھا تبھی تو پولیس کا "مورال” بلند ہوا یونیورسٹی اور میجر کے ساتھ "جو” کر سکتی تھی کر گزری۔ میجر اعجاز کی بیگم صاحبہ اپنے خاوند کی رہائی کے لئے دربدر پھرتی رہیں مجال ہے جو کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ اس محترم خاتون کا وائس میسج میں نے بھی سنا یقین مانیں میں کانپ کر رہ گیا کہ ہمارے ملک کے سب سے با اثر محکمے سے کچھ عرصہ پہلے ہی ریٹائر ہونے والا آفیسر اتنا بے بس اور لاچار بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی بیوی روتی کرلاتی پھرے اور کوئی سننے والا ہی نہ ہو۔ سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی پر ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل انکوائری کمیشن بنا اس نے اپنی رپورٹ میں ایس ایچ او۔ ڈی ایس پی۔ ڈی پی او۔ یو ٹیوبر اور پولیس ٹاؤٹ کو ذمہ دار قرار دیا لیکن ان میں سے کسی کا کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ ڈی پی او اپنی مدت سے زائد عرصہ تعینات رہنے کے بعد اہالیان بہاولپور کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے رخصت ہوگیا۔ ڈی پی او کہا جاتا ہے عباس شاہ کی سرپرستی نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کر رہے تھے اس لئے کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور سر سید ثانی و محسن بہاولپور انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب جس محبت اور احترام سے رخصت کے حقدار تھے افسوس وہ اس سے محروم رہے یہ واقعہ اہالیان بہاولپور کے لئے ہمیشہ تکلیف کا سبب رہے گا۔ بہاولنگر بھی پولیس رینج بہاولپور کا حصہ ہے شائد اسی وجہ سے اس نے بھی یہی سمجھا کہ اگر ایک میجر کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا اور اس کے ادارے نے پروا نہیں کی تو پھر یہ کمانڈو سپاہی کس کھیت کی مولی ہیں اس لئے طاقت کے نشے میں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کر گئی۔ ایک لمحے کے لئے یہ سوچ بھی لیں کہ ان کمانڈوز کا بھائی کسی کیس میں مطلوب ہوگا یا وہ ناکے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا ہوگا پھر بھی ان کے گھر داخل ہونا خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانا۔ آرمی اہلکاروں کو حوالات میں بند کرکے چوبیس گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنانے کا کیا جواز ہے۔ اس کے بعد بہاولنگر پولیس کے ساتھ جو ہوا یہ مکافات عمل ہی کہلائے گا۔ اداروں سے اتنی سی گزارش ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب بھی وقت ہے کہ اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے اس قوم سے معافی مانگیں اور ایسے واقعات سے بچنے کے لئے اسلامیہ یونیورسٹی سکینڈل جوڈیشل کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد سے شروعات کریں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سانحہ بہاولنگر کی "بنیاد” سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی میں رکھی گئی اگر تب مجرموں کو بروقت سزا دے دی جاتی تو سانحہ بہاولنگر رونما نہ ہوتا اب بھی وقت ہے اسلامیہ یونیورسٹی سیکس سکینڈل کے مرکزی کرداروں کو سزا دیں جن کا تعین جوڈیشل کمیشن کر چکا ہے اور اس کے بعد اطہر محبوب صاحب سے معافی مانگ کر انہیں درخواست کریں کہ وہ واپس آئیں اور اس تاریخی جامعہ کی باگ ڈور سنبھالیں۔ وزیر اعلیٰ صاحبہ اس کے بعد سانحہ بہاولنگر کے ذمہ داران کی سزا اور جزا کا تعین کریں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اہالیان بہاولپور اور پولیس کے ماتھے پر لگا یہ داغ بہت جلد مٹ جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.