رمضان پیکج اور کفایت شعاری کی حقیقت

30

غربت اور روزہ داری میں بھوکے رہنا قدر مشترک ہے بس فرق یہ ہے کہ غربت میں آپ جبراً بھوکے رہتے ہیں جبکہ روزہ کی حالت میں سب کچھ میسر ہونے کے باوجود آپ اپنی مرضی سے کچھ کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں جو غربت اور مفلسی کے روزہ دار ہیں انہیں ماہ رمضان کے روزے زیادہ مشکل نہیں لگتے کیونکہ وہ قلت کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں لہٰذا روزے کی بھوک انہیں کم ستاتی ہے۔

ماہ صیام کو ماہ قرآن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں قرآن نازل ہوا جو سر چشمہئ ہدایت ہے کہا جاتا ہے کہ اس مقدس مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے تا کہ روزہ دار اس کے شر سے محفوظ رہیں لیکن عملاً دیکھنے میں آیا ہے کہ شیطان کی قید کے باوجود شیطان کے چیلے اس میں پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ متحرک ہو جاتے ہیں شیطان کے یہ چیلے اس رمضان تو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ پرجوش تھے اور ان کا سارا زور عوام الناس کو اشیائے ضرورت کی فراہمی میں دن دگنا اور رات چوگنا منافع چور بازاری ذخیرہ اندوزی جیسے مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کرنا تھا۔

حکومتی پالیسی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا جب رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی اعلان کر دیاگیا کہ اس سال رمضان ماڈل بازار نہیں لگائے جائیں گے اس سے مہنگائی مافیا کو مزید شہ ملی کیونکہ یہ ایک طرح کا اعلان تھا کہ حکومت کو مہنگائی اور منافع خوری سے کوئی سروکار نہیں۔ پنجاب میں 30 ارب سے زیادہ کی سبسڈی کی ساری کی ساری رقم مفت راشن سپلائی کے لیے مختص کر دی گئی اور کہا گیا کہ یہ راشن غریبوں کے گھر کی دہلیز پر پہنچایا جائے گایہاں تک تو بات ٹھیک تھی حکومت اپنے تئیں عمر بن عبدالعزیزؒ اور عمر بن خطابؓ کے دور خلافت کی یاد تازہ کرنا چاہتی تھی جو خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آٹے کی بوری اپنے کندھے پر اٹھا کر بیوہ عورت کے گھر پہنچ جاتے تھے مگر پنجاب حکومت کے اس فرمان کا جو حشر ہم نے ہوتے دیکھا ہے وہ ”دیکھتا جا شرماتا جا“ والی بات ہے۔

رمضان سبسڈی پیکیج کے لیے یونین کونسل سطح پر ن لیگ کے وہ سارے کارکن اکٹھے کر لیے گئے جو تازہ تازہ انتخابی مہم سے فارغ ہوئے تھے
ساری فہرستیں انہوں نے بنائیں گلی گلی میں چلتے پھرتے پٹوار خانے اپنی من پسند خواتین بلکہ بہت سے کیسز میں اپنی گھریلو خواتین کا نام بھی خانہ پری کے لیے فہرستوں میں ڈال دیئے گئے اب گراؤنڈ صورتحال یہ ہے کہ 30 ارب کی سبسڈی بانٹی جا چکی ہے کاغذی ریکارڈ اتنا شفاف ہے کہ ورلڈ بنک بھی اسے مسترد نہیں کر سکتا مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنی رمضان راشن چوری اس دفعہ ہوئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔

یہ تو پنجاب کی صورتحال تھی وفاق میں وزیراعظم نے پہلے 7 ارب اور پھر 12 ارب روپے کی اضافی رقم رمضان کے لیے یوٹیلٹی سٹورز کو مختص کی وہاں بھی وہی ہوا جو پنجاب میں ہوا تھا ان کے پاس بھی 12 ارب سبسڈی کا پورا ریکارڈ موجود ہے لیکن گراؤنڈ پر یہ تھا کہ جن اشیاء پر سبسڈی کا اعلان کیا گیا تھا وہ کسی یوٹیلٹی سٹور پر موجود نہیں ہوتی تھیں آٹا چاول گھی پتی دالیں وغیرہ یوٹیلٹی سٹور والے کہتے تھے کہ وہ سٹاک سیل ہو چکا ہے۔ ان کو پکڑنے والے ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ جبکہ دوسری طرف شہر کا اسسٹنٹ کمشنر 6 کروڑ کی گاڑی اور 12 مسلح پولیس اہلکاروں کے ساتھ نمائشی گشت کرتا تھا۔ اس گشتی دستے کے فرائض میں مہنگائی روکنا تھا جس کا سارا زور ریڑھی والوں پر تھا جو اصل مافیا تھے وہ پیچھے بیٹھ کر تماشا دیکھتے تھے۔

جو strawberry رمضان کے شروع میں 500 روپے کلو ریڑھی پر ملتی تھی اب 150 میں مل رہی ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ گشتی دستے نے مہنگائی کنٹرول کر لی ہے بلکہ یہ ڈیمانڈ سپلائی نظام ہے اس فروٹ کو زیادہ دیر سٹور کریں تو یہ خراب ہو جاتا ہے لہٰذا اس خوف سے اب وہ ذخیرہ شدہ مال مارکیٹ میں پھینک رہے ہیں کہ خراب نہ ہو جائے۔

اس رمضان میں دو چیزیں بطور خاص نوٹ کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ افطار پارٹیوں کی خبروں میں نمایاں کمی آئی ہے جس کی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں اب سفید پوش طبقے کے اندر رشتہ داروں اور دوستوں کی افطاری کرانے کی سکت باقی نہیں رہی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھکاریوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ لاہور چونکہ ”بھیک انڈسٹری“ کے لحاظ سے کراچی کے بعد سب سے زیادہ پرکشش سٹیشن ہے لہٰذا دور دراز سے بھکاریوں کے قافلے رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے ہیں ان لوگوں کے پاس ایسے ایسے کرتب ہیں کہ کنجوس سے کنجوس بندہ بھی اندر سے پگھل جاتا ہے۔ عورتیں چھوٹے چھوٹے بچوں کی ٹریفک اشارے کے پاس چٹائی پر بٹھا کر انہیں کتابیں کاپیاں آگے رکھ کر ہوم ورک کراتی نظر آتی ہیں۔ بھکاری روزہ افطاری کے عین موقع پر آپ کی بیل کرتے ہیں اور ایسی ایسی آوازیں نکالتے اور ڈائیلاگ بولتے ہیں کہ آپ کا دل دہل جاتا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں پے در پے حکومتوں نے ملک میں کارخانے لگانے کے بجائے غریبوں میں امداد بانٹنے کے پروگرام شروع کر کے پوری قوم کو اس کام پر لگا دیا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر بہت سے نوعمر بھکاریوں کو کام پر لگوانے کی آفر کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ یہ کام نہیں کرنا چاہتے بلکہ Easy Money چاہتے ہیں ان کے ضمیر شیل کر دیے گئے ہیں حالانکہ قرآن میں لکھا ہے کہ آپ کے صدقات و خیرات کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جو سوال نہیں کرتے اور عام انسان انہیں غیر حاجت مند سمجھتا ہے مگر آپ انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہیں۔

ہماری روایتی تاریخ یہ ہے کہ عید پر غریبوں میں عیدی تقسیم کی جاتی ہے جس میں مخیر حضرات اپنے ملازموں خدمت گاروں اور غرباء میں نقدی تقسیم کرتے ہیں یہ رسم سرکاری طور پر وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں سر انجام دی جاتی ہے مگر وہاں فرق اتنا ہے کہ وزیراعظم اور صدر جو پیسے بانٹ رہے ہوتے ہیں وہ رقم بھی سرکاری خزانے سے دی جا رہی ہوتی ہے اور اس کے لیے جو جعلی غرباء اکٹھے کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر ان کے اپنے ذاتی ملازمین ہوتے ہیں جن کو عید بونس کے طور پر دو دو تنخواہیں پہلے ہی مل چکی ہوتی ہیں۔

سنا ہے کہ وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں سرخ قالین کے خاتمے کی ہدایت کی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے یہ شاید اس خبر کے بعد آرڈر جاری کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے شجرکاری مہم میں پودا لگانا تھا مگر سرکاری قالین پودے کی جگہ سے دو فٹ پہلے ختم ہو گیا تو وزیراعلیٰ نے قالین سے زمین پر اترنے کے بجائے وہاں کھڑے کھڑے ہی ہاتھ لمبا کر کے پودے کو پکڑ کر تصویر بنوا لی۔ وزیراعظم صاحب یہ کاسمیٹک قسم کی کفایت شعاری مہم سے کام نہیں چلے گا یہ محض ہومیو پیتھک علاج ہے فائدہ نہ سائیڈ افیکٹ، نمائشی طرز حکمرانی سے باہر نکلنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.