عید کی خوشیاں اکیلے مت منائیں!!

98

رمضان المبارک کے دو عشرے گزر چکے ہیں۔ یہ رحمت اور مغفرت کے عشرے تھے۔ اب تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا عشرہ ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ نوکری سے بندھے ہونے کے باعث میں اس مبارک مہینے میں پوری توجہ اور دلجمعی سے عبادت کرنے سے قاصر رہی ہوں۔ اپنا وقت عبادات میں صرف کرنے کے بجائے ، دنیا جہان کے لایعنی کاموں اور دفتری امور میں مصروف رہی۔ ہونا یہ چاہیے کہ اس مبارک مہینے میں دنیا کے تمام کاموں اور نوکری سے چھٹی لے کر سارا وقت اپنے گناہ معاف کروانے اور اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے وقف کیا جائے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ وہ مہینہ جس کا انتظار میرے پیارے نبی ؐاور ان کے صحابہ کرام ؓکیا کرتے تھے، اس مہینے کو دنیاوی کاموں کی نذر کر دیا جائے۔ اس مرتبہ ارادہ باندھا ہے کہ انشااللہ زندگی رہی تو اگلی مرتبہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے اپنے تمام دفتری کام سمیٹ کر اپنا تمام وقت مضان المبارک کے لئے مختص کروں گی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اس ارادے میں برکت ڈالے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اس آخری عشرے میں بھی کوشش ہے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کروں۔ یوں تو رمضان المبارک کا پور ا مہینہ انتہائی رحمتوں اور برکتوں کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن آخری عشرے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس عشرے میں طاق راتیں ہوتی ہیں۔ انہی طاق راتوں میں شب قدرپوشیدہ ہے۔ یعنی وہ رات جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جس نے اس مبارک رات کو پا لیا گویا اس نے دنیا جہان کی تمام بھلائی کو حاصل کر لیا۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس آخری عشرے میں اپنا وقت عبادات اور نیکی کے کاموں میں صرف کریں۔ ا پنی مغفرت کا اسباب کریں اور شب قدر کی برکتیں سمیٹیں۔ اس آخری عشرے میںعمومی طور پر ہم سب عید کی تیاریوں میں بھی مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنی حیثیت اور استعداد کے مطابق اپنے لئے شاپنگ کرتے ہیں۔ اپنے بچے ہمیں اس قدر پیارے ہوتے ہیں کہ ان کی شاپنگ کرتے وقت بسا اوقات اپنی استعداد سے بڑھ کر اخراجات کرنے لگتے ہیں۔بہت اچھا ہو اگر ہم عید کی خوشیاں مناتے وقت اپنے گر د و پیش کا جائزہ لیں۔ اپنے خاندان، اپنے ہمسائیوں، دوست احبات، دفتراور گھر کے ملازمین پر نگاہ دوڑائیں۔ شاید کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو۔ شاید کوئی ہماری نگاہ التفات کا منتظر ہو۔ شاید کسی نے ہم سے کوئی امید باندھ رکھی ہو۔ ہم سب ملک میں مہنگائی کی صورتحال سے آگاہ ہیں۔ چند سالوں سے مہنگائی اس تیز رفتاری سے بڑھی ہے کہ اس نے ہم جیسے اچھے بھلے لوگوں پر بھی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ ان حالات میں غریب آدمی کی کیا حالت ہو گی۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارے اپنے حلقے میں کئی ایسے خاندان ہوں گے جو غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ بچوں کے اسکول کی فیس دیتے ہیں تو علاج معالجے کے خرچ سے آنکھیں چرانا پڑتی ہیں۔ بجلی گیس کے بل ادا کرنے کے لئے انہیں مہینہ بھر ایک وقت کی روٹی کا ناغہ کرنا پڑتا ہے۔ چند ہزار روپے کے لئے پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔ میرے اپنے خاندان میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں، جو اچھی بھلی زندگ بسر کر رہے تھے۔ اب دیکھتی ہوں تو وہ لوگ کئی کئی مہینوں تلک بچوں کی اسکول کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ایسے افراد کو بھی جانتی ہوں جو اپنے بزرگوں کا علاج کروانے سے قاصر ہیں کہ ان کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ سفید پوش لوگ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ خاموشی سے اپنی عزت و آبرو بچا کر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یقین جانیں ہم سب کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا خیال رکھیں۔ ان کی مالی امداد کرکے ان کا کچھ نہ کچھ بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے بچوں کا تھوڑابہت بوجھ اٹھا ئیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے رب نے ہمار اسارا ا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔

عید کی خوشیوں میں ان مستحق لوگوں کو شامل کریں۔ اپنے بچوں کی شاپنگ کرتے وقت ضرور سوچیں کہ کہیں خاندان کے فلاں گھرانے کا فلاں بچہ عید کی خوشیوں اور شاپنگ سے محروم تو نہیں رہ گیا۔ یقین جانیں کہ ہم دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھیں گے تو اللہ پاک ہماری خوشیوں میں برکت ڈالے گا۔ ہمارے معاملات زندگی میں آسانیاں پیدا کرئے گا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ایک دینی شخصیت کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی کہ فطرانے کے لئے عید کی نماز کا انتظار مت کریں۔ مستحقین کو تلاش کریں اور یہ رقم ان کے حوالے کردیں تاکہ وہ اپنا رمضان اور عید سہولت کے ساتھ گزار سکیں۔ اپنی زکوٰت کی رقم بھی مستحق افراد کو بروقت پہنچائیں، بالکل اس طرح جیسے ہم اپنے رب سے اپنی دعاوں کی بروقت قبولیت چاہتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں توفیق دے کہ ہم رمضان اور عید کی خوشیاں اکیلے منانے کے بجائے دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شریک کریں۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.