ابنِ آدم کا فریضہ ہے کہ وہ خالقِ کائنات کی معرفت حاصل کرے، اپنے رب کی توحید کے ہر پہلو کا ادراک کرے اور ربِ کائنات کی توحید، صفات، جلال، احسانات، قدرت و عظمت، بڑائی، کبریائی اور شان کو سمجھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! ہم میں سے کون ہے جو اپنے اوپر ظلم نہیں کرتا؟ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم نے لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ عقیدہ توحید اپنے ماننے والوں کو نفسیاتی قوت عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل اللہ تعالیٰ سے امید، اس پر یقین، اسکے فیصلوں پر رضا مندی، توکل، آزمائشوں پر صبر اور اس کی مخلوقات سے استغنا کی قوت و طاقت سے لبریز رہتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اور (یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ سب بول اٹھے: کیوں نہیں (تو ہی ہمارا رب ہے)۔
ابنِ سیرین نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی کہ بیان فرماتے ہیں ”رسول اللہﷺ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ (صدقہ و فطر) کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا، (ایک رات کو اچانک) ایک شخص میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھر بھر کر اٹھانے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا، اس پر اس نے کہا میں بہت محتاج ہوں، میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں، حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ (اس کے اظہارِ معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے پوچھا: اے ابو ہریرہ! گزشتہ شب تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا، آپﷺ نے فرمایا: وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا، رسولِ کریمﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا، اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا اور جب دوسری رات آ کر وہ پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا: تجھے رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دیں، میں محتاج ہوں، بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے، اب میں کبھی نہیں آؤں گا، مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! تمہارے قیدی کا کیا بنا؟ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، جس پر مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا، آپﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا، تیسری مرتبہ میں اس کی تاک میں تھا کہ اس نے پھر آ کر غلہ اٹھانا شروع کر دیا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: تجھے رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے، یہ تیسرا موقع ہے، ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے (لیکن باز نہیں آئے اور) پھر آ جاتے ہو، اس نے کہا: (اس مرتبہ) مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا، میں نے پوچھا: وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا: جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی پوری پڑھ لیا کرو (یعنی اللہ! کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم با لذات ہے)، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نگران فرشتہ برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا (اس مرتبہ بھی) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا: گزشتہ شب تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا، اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ نے دریافت کیا: وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا: اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی شروع سے آخر تک پڑھ لیا کرو، اس نے مجھ سے یہ بھی کہا: (اس کے پڑھنے کی برکت سے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ کرامؓ سب سے بڑھ کر خیر لینے والے والے تھے۔ (حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ بات سن کر) نبی کریمﷺ نے فرمایا: اگرچہ وہ جھوٹا ہے لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے، اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہاری کس سے بات چیت ہو رہی تھی؟ حضرت ابوہریرہؓ نے عرض کیا: نہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’وہ شیطان تھا‘۔ وہ شیطان جس نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا یوں اسے اس کے مقام و منزلت سے عزل کر کے خدا کی بارگاہ سے نکالا گیا۔ اس کے بعد ا س نے ربِ ذوالجلال سے قیامت تک کی مہلت مانگی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور اسے ایک متعین دن تک کی مہلت دی۔ ربِ دو جہان نے متعدد آیات میں انسان کو شیطان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اس کے دھوکے میں نا آنے کا حکم دیا تا کہ وہ انسان کو اپنے خالق کی بندگی سے خارج نا کر دے۔ آیت الکرسی کی اہمیت، کیفیت و حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ آیت الکرسی کی یہ اہمیت اور عظمت اس بنا پر ہے کہ یہ قرآن کریم کی ان چند آیات میں سے ایک ہے، جن میں اللہ تعالیٰ کی توحیدکی مکمل تعریف بیان کی گئی ہے۔ غلام قومیں توحید کا کلمہ پڑھ کر بھی تصورِ توحید سے نا آشنا اور توحید کی برکات سے محروم رہتی ہیں۔ عقیدہ توحید ایک ایسی متوازن شخصیت کی تشکیل کرتا ہے جس کا قبلہ زندگی ممتاز ہوتا ہے، مقصدِ زندگی ایک ہوتا ہے اور طرزِ زندگی متعین ہوتا ہے۔ بقول شاعر
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
تبصرے بند ہیں.