مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے 5اگست 2019 کو غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں بھارتی ریاستی دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل،جبری گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اگست 2019 کے بی جے پی کی بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کے بعد سے بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ماہ (فروری )تک مقبوضہ علاقے میں28 لڑکوں سمیت 857 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بابائے حریت سید علی گیلانی، محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ ان درجنوں کشمیریوں میں شامل ہیں جو جیلوں میں غیر قانونی نظربندی کے دوران وفات پا گئے۔ اس عرصے کے دوران بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے پرامن مظاہرین پر فائرنگ، پیلٹ گنزاور آنسو گیس سمیت طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 2ہزار416 کشمیری شدیدزخمی ہوئے۔
رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ 05اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے کشمیریو ں کے قتل عام کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے اور یہ تعداد 2011سے 2015اور 2019میں شہید کئے گئے کشمیریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ شہید ہونیوالے بیشتر کشمیریوںکو جعلی مقابلوں اور محاصرے اور تلاشی کی پرتشددکارروائیوں میں یا حراست کے دوران قتل کیا گیا۔بہت سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرنے کے بعد مجاہدین یا مجاہد تنظیموںکا کارکن قراردیکر قتل کردیاگیا۔بیشتر گرفتار نوجوانوں کیخلاف بھارتی فورسز نے پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے۔
05 اگست 2019 کے بعد سے ابتک فوجیوں کے ہاتھوں ہونیوالی شہادتوں کی وجہ سے 65 خواتین بیوہ اور 180بچے یتیم ہو ئے ہیں۔ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں میں ایک ہزار116سے زائد مکانوں اوردیگر عمارتوں کو تباہ کیا اور 133خواتین کی بے حرمتیاں کیں اور 22ہزار 490 کشمیریوں کو جبری طور پر گرفتار کیا۔
ادھر بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ماہ فروری میں 317کشمیریوں کو گرفتار اوروحشیانہ تشدد سے3 کو زخمی کر دیا۔ پورے مقبوضہ کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں ہزاروں حریت رہنمائوں اور کارکنوں ، مذہبی و سیاسی رہنمائوں ئ، تاجروں اور سول سوسائٹی کے ارکان اورکشمیری نوجوانو ں کو گرفتار کرلیاگیا اور وہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی متعددجیلوںمیں قید ہیں۔
بھارت مقبوضہ کشمیرمیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے کشمیریوں سے انکی املاک ، جائیدادیں ، زمینیں اورسرکاری نوکریاں چھین رہی ہے۔بھارتی قابض انتظامیہ اور اسکی فوج کشمیریوں کو اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارایت کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کیلئے ان کی جائیدادیںا ور اراضی ضبط کر رہی ہے۔تاہم بھارت تمام تر مظالم کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے میںبری طرح ناکام رہا ہے۔کشمیری عوام اپنے پیدائشی حق خودارادیت سمیت تمام بنیادی حقوق کے حصول کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔
رپورٹ میں عالمی برادری پر زوردیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ اقدامات کا فوری نوٹس لے اور کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں اب تک 5 قراردادیں منظورکی جا چکی ہیں، مگر ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بہیمانہ مظالم میں بے جے پی ملوث ہے۔ جینوسائیڈ واچ پہلے ہی دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم سے خبردار کر چکی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کیا۔
کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک متنازعہ علاقہ ہے جس میں کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ حق عالمی ادارے کی قراردادوں نے اسے دلا رکھا ہے لیکن بھارت آج تک حیلوں بہانوں سے استصواب رائے کو موخر کر کے شاید یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ بن چکا ہے۔ حالانکہ کشمیریوں نے ہر موقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کو کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور پاکستان کے یوم آزادی (14 اگست) کو وہاں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ اسی سے کشمیریوں کے جذبات کا اندازہ ہو جاتا ہے اور اگر بھارتی قیادت کو اس میں کوئی شک و شبہ ہے تو استصواب رائے کا راستہ کھلا ہے، بھارت اس کا اہتمام کرے اسے اندازہ ہو جائے گا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ کشمیر (مقبوضہ) میں جو انتخابات ہوتے ہیں کشمیریوں کی نمائندہ قیادت ان کا بائیکاٹ کرتی ہے۔ اس بائیکاٹ کے بعد جو چند فیصد ووٹ پڑتے ہیں ان کی بنیاد پر تو کشمیریوں کی رائے سامنے نہیں آتی۔
تبصرے بند ہیں.