ایک اہم کالم نئے حکمرانوں کی توجہ کے لئے

92

پاکستان کے مسائل ایسے سدا بہار ہیں کہ آج سے ستر سال پہلے والا مسئلہ آج بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے ستر سال پہلے کیا جاتا تھا اس فرق کے ساتھ کہ اب لوگ ذرا چڑ چڑے ہوتے جارہے ہیں وہ اپنے حق کے لئے تو آواز نہیں اٹھاتے ہاں جوتیاں مارنے والوں کی تعداد میں اضافے کی ڈیمانڈ ضرور سامنے لاتے ہیں۔ اس ملک کو جو آج حالت ہے اسے یہاں تک لانے میں ہر شہری نے اپنا کردار خوب نبھایا ہے اور اب یہ حالت ہو چکی ہے کہ امن اور سکون سب کا برباد ہو چکا ہے۔

جس دن ہمیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ ہمارے حقیقی مسائل کیا ہیں اور اس کے لئے بحیثیت مجموعی ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے وہ دن اس ملک میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا،پھر ہمارے قلم کی شعلہ بیانی بھی بدل جائے گی اور ٹاک شوز میں پروفشلز کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ہم سیاسی و مذہبی”لیڈروں“ کی اُگلی ہوئی باتوں (بیانوں) کی جگالی کرتے ہوئے اخبارات کے صفحے کالے کرتے اور کالم لکھتے رہتے ہیں ٹاک شوز بھانڈوں کے ہتھے چڑھے ہیں جہاں ٹھٹا اڑانے کی مہارت کے استعمال کے گر سکھائے جاتے ہیں۔ جنہیں خود سماجیات اور اخلاقی کلاسوں میں داخلہ لینا چاہیے وہ قوم کی راہنمائی کا ”فریضہ“ سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک چلن یہ بھی عام ہو چکا ہے کہ کوئی بھی عالمی دن پنج ستارہ ہوٹلوں میں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہوئے مناتے ہیں اس دن کی اہمیت اورا فادیت کا”ابلاغ“ کرتے ہیں اور اس کے بعد۔۔۔۔۔۔لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔یہ ہمارا قومی کردار ہے۔۔ سماجی و انسانی،سائنسی و تعلیمی اور صحت عامہ کی ترقی کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں یہ بھی ہمیں دنیا بتاتی ہے جسے ہم فوراً یہود و ہنود کی سازش قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ہم پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیمز بنانے پر تو کوئی توجہ نہیں دیتے جبکہ دریاؤں کے خشک ہوجانے اور پانی کی کمی کا الزام ہم بھارت پر لگانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔
یہ حال پانی کے مسئلے کا ہے جس کاعالمی دن مناتے ہیں روایتی

سیمینار،تقریریں اور شعلہ بیانیوں میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کوشش کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں واٹر پالیسی بنانے پر نہ ہی زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی پانی کیوں کم ہو رہا ہے پر بات کی جاتی ہے۔تحقیق اور جستجو میں سرگرداں ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کو صاف پانی کی محرومی کا سامنا ہے۔ پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کے شکار اس ملک کے پاس ابھی تک پانی کے حوالے سے کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔ پانی کے امور پر تحقیق کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چند دہائیاں پہلے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ پاکستان کو پانی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہاں پانی کی ایک لیٹر بوتل کی قیمت ایک لیٹر پٹرول کی قیمت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ”پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار پانی پر ہے اور بدقسمتی سے پانی کا مسئلہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔“

پانی اب صرف چولستان، تھر اور پہاڑی علاقوں میں ہی نہیں رہا بلکہ کراچی جیسے شہر میں بھی لوگوں کو پینے کے صاف پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ خوشاب کی یونین کونسل گولے والا کے گاؤں مہوڑیاں والا میں پاکستان کے کئی دوسرے علاقوں کی طرح آج بھی جانور اور انسان ایک ہی ذخیرے سے پانی پیتے ہیں۔

کنزیومر رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال کی عمر تک کا ہر پانچواں بچہ آلودہ پانی اور ناقص خوراک کی وجہ سے مختلف طبی بیماریوں کا شکار ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کا مسئلہ آنے والے دنوں میں شدت اختیار کر سکتا ہے۔

کچھ عرصہ پیشر پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے ملک کے 23 شہروں سے پانی کے جو نمونے حاصل کیے تھے ان کے مطابق ان میں بیماری کا باعث بننے والے مضر صحت اجزاء پائے گئے تھے۔ اس ادارے نے 2010 ء تک مکمل کی جانے والی فراہمی آب کی 3200 سکیموں کا معائنہ مکمل کیا تھا۔ ان میں سے 35 فی صد سکیمیں وسائل کی کمیابی کی وجہ سے نان فنکشنل ہیں، 20 فی صد سکیموں میں واٹر ٹریٹ منٹ پلانٹ ہی نہیں تھے جبکہ 72 فی صد سکیموں کے ذریعے عوام کو ملنے والا پانی آلودگی کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں تھا۔ کئی علاقوں سے پینے کے پانی کے سیوریج کے پانی سے مل جانے اور پائپوں میں لگا زنگ پانی میں مل جانے کی شکایات بھی سننے میں آتی رہتی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ فیصد پانی گھریلو صارفین، پانچ فیصد صنعتی صارفین اور بقیہ نوے فیصد پانی زرعی شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سندھ کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق عام طور پر ایک کاشتکار کی فی ایکڑ لاگت 25000 روپے کے قریب ہوتی ہے لیکن اس میں پانی کا خرچہ صرف 53 روپے ہوتا ہے، اس لیے اس پانی کا استعمال محتاط طریقے سے کرنے کی فکر عام طور پر نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کی پراپر پرائسنگ کی جاتی ہے۔

پاکستان کے دریاؤں میں پانی کا اسی فیصد بہاؤ اپریل اور اگست کے صرف 100 دنوں تک رہتا ہے باقی بیس فیصد پانی سال کے باقی 265 دنوں میں بہتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک مصر میں پانی ذخیرہ کر سکنے کی صلاحیت 1000 دنوں تک کی ہے جبکہ امریکا میں 900 دنوں کی، آسٹریلیا میں 600 دنوں کی، جنوبی افریقہ میں 500 دنوں کی، بھارت میں 170 دنوں کی اور پاکستان میں کیری اوور کیپیسٹی صرف 30 دنوں تک کی ہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان بہت زیادہ پانی استعمال کرنے والی گنے اور چاول کی فصلیں اگا کر برآمد بھی کرتا ہے۔ گاڑی دھونی ہو یا نہانا ہو یا وضو کرنا ہو پانی کے استعمال میں احتیاط کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

صاف پانی کی کمیابی یا اس تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مضر صحت پانی کا استعمال بڑے پیمانے پر انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے اور واٹر ایڈ کے مطابق ہر سال پاکستان میں تقریباً 53 ہزار بچے اسہال اور گندے پانی سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ تیس لاکھ کے لگ بھگ افراد پانی کے باعث پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔پانی اور حفظان صحت سے متعلق کام کرنے والی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم "واٹر ایڈ” کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد لوگوں کی صاف پانی تک رسائی نہیں اور اس ضمن میں انھیں عدم مساوات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں اور لوگوں کے پاس غیر محفوظ ذرائع سے غیر معیاری پانی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جب کہ یہاں پانی کا زیاں بھی معمول سمجھ کر کیا جاتا ہے اس وقت لاہور جیسے شہر میں پینے کے صاف پانی کے فلٹریشن پلانٹ خراب یا بند پڑے ہیں۔ پاکستان میں کوئی جامع واٹر پالیسی ہی نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس کا ادراک ہے کہ یہ معاملہ ہوتا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کے مسائل بھی سیاست کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔ پاکستان میں پانی کے محتاط استعمال کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم چلانے کے ساتھ ذخیروں پر فوری کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.