جیل سے گیم آن، ہاتھا پائی، 7 دن کا الٹی میٹم

39

سیانے کہتے تھے حالات اچھے نہیں، الیکشن کے بعد مزید بگڑیں گے سچ ہی تو کہتے تھے الیکشن کے بعد کیا ہو رہا ہے؟ جو جیتے وہ ایوانوں میں حلف اٹھانے کے بعد چور اور گھڑی چور کے نعرے لگانے میں سرگرم، ہارنے والے سڑکوں پر ہیں۔ سرد موسم میں احتجاج، ایوانوں میں گرما گرمی، نعرے بازی، ہاتھ پائی، مارکٹائی، چاروں صوبائی اسمبلیوں میں حلف کے بعد سپیکر اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب مکمل، الیکشن کے 21 دن بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہو گیا۔ ن لیگ کے سردار ایاز صادق تیسری بار سپیکر منتخب ہو گئے انہوں نے 199 ووٹ لیے۔ سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کے عامر ڈوگر کو 91 ووٹ ملے، یعنی وہی ڈھاک کے تین پات، 180 نشستیں کہاں گئیں، ہَوا میں تحلیل ہو گئیں۔ جتنے تھے انہوں نے حلف اٹھا لیا۔ سپیکر نے حلف کے الفاظ پڑھے ’’میں دستور پاکستان کا وفادار رہوں گا‘‘ پی ٹی آئی کے متعدد ارکان نے مبینہ طور پر ’’کہ میں عمران خان کا وفادار رہوں گا‘‘ کے الفاظ دہرائے، اس کے بعد وفاداری کا مظاہرہ نعرے بازی، تقریریں، ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ اس سے قبل صدر مملکت نے اجلاس موخر کرانے کی اپنی سی کوشش کی۔ نگراں وزیر اعظم نے 29 فروری کو اجلاس کے انعقاد کی سمری ایوان صدر بھیجی صدر نے سمری واپس کر دی، اعتراض کیا کہ سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں ملنے تک ایوان مکمل نہیں ہو گا۔ اس لیے اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ لیگل ٹیم نے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق کے حوالہ سے سمجھایا کہ اس میں صدر کا عمل دخل نہیں۔ اجلاس ہونا ہے سمری مسترد کر کے آپ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے دھمکی دی کہ صدر پر 9 مارچ کے بعد آرٹیکل 6 کے تحت دو مقدمات قائم ہوں گے۔ دھمکی کام آ گئی۔ 28 اور 29 فروری کی درمیانی شب پونے بارہ بجے صدر نے سمری کی منظوری دے دی، شور شرابے کے باوجود وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل، سندھ میں مراد علی شاہ، پنجاب میں مریم نواز، بلوچستان میں سردار سرفراز بگٹی اور خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور وزرائے اعلیٰ جبکہ وفاق میں شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار عمر ایوب کا ناکامی پر چیخ چیخ کر گلا بیٹھ گیا۔ ووٹ دیگر جماعتوں کو ملے، دھاندلی کا شور، نعرے بازی لیکن جہاں جہاں دوبارہ گنتی ہوئی آزادوں کا مینڈیٹ سکڑتا نظر آیا، لودھراں، تاندلیا نوالہ، اسلام آباد میں دوبارہ گنتی پر ن لیگ کامیاب قرار پائی۔ خیبر پختونخوا میں مبینہ طور پر 36 نشستوں کے نتائج تبدیل کیے جانے کے الزامات لیکن پی ٹی آئی کے محاذ پر خاموشی، مولانا فضل الرحمان کو سازش کے تحت ایرنیا سے باہر کیا گیا۔ اے این پی کو بھی یہی شکایت، مولانا مایوس پورے سسٹم سے ناراض پی ٹی آئی کا وفد نمک پاشی کے لیے ان کے گھر پہنچ گیا۔ تعاون طلبی مقصد، کچھ دیا ہی نہیں تو کیا لینے گئے۔ مولانا نے گاجر کا حلوہ کھلا کر رخصت کر دیا۔ وہ مسلم لیگ ن سے بھی ناراض تھے۔ بائیکاٹ پر بضد نواز شریف ملنے گھر پہنچ گئے۔ شکوے شکایتیں ہوئیں انتخابات میں دھاندلی پر تحفظات سے آگاہ کیا۔ کمال ہے ان کے خلاف دھاندلی کے پی کے میں ہوئی غصہ ن لیگ پر اتار رہے ہیں۔ نواز شریف نے حکومت میں شمولیت کی دعوت دی، عبدالغفور حیدری نے عطا تارڑ کی توقعات کے برعکس حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی نے اپوزیشن لیڈر بنانے کی پیشکش کی عزت افزائی یا مفادات کے حصول کے بھاگ دوڑ ورنہ مولانا کو برے القابات سے پکارنے والوں پر محبت کا دورہ چہ معنی دارد؟ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے معاملات مکمل ہونے کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ نظام چل پڑے گا لیکن تلخی ختم ہوتی
نظر نہیں آتی، اڈیالہ جیل سے گیم آن ہے۔ سزا یافتہ قیدی ہونے کے باوجود خان جیل کی کرسی پر براجمان ملک کی سیاست چلا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کو قرضے نہ دینے سے متعلق خط، امریکا سے مدد کی اپیل، پارٹی لیڈروں کو ہدایات، 2 مارچ کو سڑکوں پر آنے کی کال سیاست کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں۔ ان ہی کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے وفد نے مولانا سے ملاقات کی۔ ان کی رہائی کے لیے امریکی صدر جوبائیڈن کی حکمران پارٹی کے 30 سے زائد ارکان کانگریس نے نہ صرف اپیل کی ہے بلکہ انتخابات میں دھاندلی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پاکستان دھاندلی کی شکایات ختم نہ کرے تو اس پر پابندیاں لگا دی جائیں۔ ان ہی خبروں کے تناظر میں طارق عزیز نامی ایک صحافی نے شُرلی چھوڑ دی کہ شاہ محمود قریشی اپریل اور خان اگست میں جیل سے باہر آ جائیں گے۔ شوکت بسرا نے ایک ہوٹل میں اپنی قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا پی ٹی آئی کے شکست خوردہ ارکان سے حلف لیا تاکہ 180 نشستوں کا ہدف پورا کیا جا سکے اور اعلان کیا کہ ’’عمران خان دی گل ہو گئی اے‘‘ بناوٹ، سجاوٹ، ڈھٹائی، بے غیرتی سب کو مات، خان اندر سے ٹوٹ گئے۔ ڈپریشن کا شکار، بیٹھے بیٹھے ملاقاتیوں پر برس پڑتے ہیں گالم گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن خوش قسمت ہیں کہ سسٹم کے اندر اور باہر بیٹھے لوگ ان کے لیے سہولت کاری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مبینہ طور پر ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل گزشتہ دنوں پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیتے پائے گئے۔ جن کے پاس گئے انہوں نے کورا جواب دے دیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر تاثر دیا گیا کہ ڈیل کے لیے بات چل رہی ہے۔ ان خبروں کو اس فیصلے سے بھی تقویت ملی جس کے تحت سانحہ 9 مئی میں ملوث شاندارنہ گلزار اور شہریار آفریدی کو ایم پی او کے تحت زیر حراست رکھنے والے پولیس افسران کو چھ، چار اور دو ماہ قید کی سزائیں سنا دی گئیں۔ تاہم اپیلوں کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔ گیم آن ہے۔ بحران در بحران نظام چلنے نہیں دیں گے۔ خان کی سیاست کا بوجھ اٹھانے کو کوئی تیار نہیں جبکہ ان کی مقبولیت پر ووٹ لینے کے لیے سب مستعد، انہیں اپنی جارحانہ سیاست کے لیے بندے نہیں مل رہے۔ وکلا ان سے ملاقات کے بعد باہر آ کر مفاہمت کا پیغام دیتے ہیں لیکن ڈیل خارج از امکان، با خبر ذرائع کا کہنا ہے جس دن سلمان احمد کا ٹوئٹر خاموش ہو گیا اس دن سمجھ لیں کہ ڈیل ہو گئی مگر ڈیل کیسے ہو گی، افراد کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اداروں کی نہیں، جن کی تنصیبات اور گھر جلائے گئے وہ اس سانحہ کو بھلانے کے لیے تیار نہیں، چنانچہ سانحہ 9 مئی میں ملوث ملزموں کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع کر دی گئی ہے۔ شنید ہے کہ سہولت کاری کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں بڑے گھروں کی روشنیاں رات گئے تک گل نہیں ہوتیں، صبح اقتدار کی راہداریوں میں رات کے فیصلوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کیلئے ڈیڑھ دو ماہ انتہائی اہم ہیں ان کے خلاف پر پردہ سازشیں شروع ہو گئی ہیں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز پر حملہ کی خبریں، کالیں موصول ہونے لگیں۔ حساس اداروں نے محترمہ کو محتاط انداز اختیار کرنے کا مشورہ دے دیا۔ ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت پر رہائی پانے والی سانحہ 9 مئی میں ملوث شاندانہ گلزار نے مبینہ طور پر دھمکی دی کہ جتنا اسلحہ پورے ملک میں ہے اس سے کہیں زیادہ خیبر پختونخوا میں موجود ہے اور سنیے خیبر پختونخوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے حلف اٹھاتے ہی الٹی میٹم دے دیا کہ 9 مئی کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے بانی پی ٹی آئی کو فوری رہا کیا جائے۔ پولیس ایک ہفتہ میں تمام غلط ایف آئی آرز ختم کرے ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جائے حق لینا بھی جانتے ہیں اور چھیننا بھی۔ نو منتخب وزیر اعلیٰ نے کے پی کے کی ’’ترقی اور خوشحالی‘‘ کے لیے لائحہ عمل کا جو اعلان کیا ہے وہ کافی نہیں؟ اور کیا چاہیے بیان کے لیے کوئی ابہام نہیں کہ وہ صوبہ کو بیس کیمپ بنا کر وفاق پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں، کیا ضروری نہیں کہ اس رعد الفساد پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، ورنہ شاید بہت دیر ہو جائے گی۔ بانی پی ٹی آئی نے کے پی کے کے عوام کا ڈی این اے ہی تبدیل کر دیا ہے۔ انہیں اپنی سیاست کے لیے جارحیت پسند افراد کی ضرورت ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسد قیصر جیسے شخص کو مذاکرات اور سیاسی فیصلے کرنے کے اختیارات سے محروم کر دیا۔ حالات سے لگتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ شکنجہ کسا جائے گا۔ لیکن حلف کے الفاظ بدلنے والے چند سر پھرے لوگوں نے ریاست کے لیے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر خان صاحب اپنا رویہ تبدیل کر کے اپنے بازو جھکانے پر تیار نہ ہوئے اور عوام کو اپنی سیاست کے چارے کے طور پر اسی طرح استعمال کرتے رہے تو کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈلیور کر سکیں گی؟ اسٹیبلشمنٹ خان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، پی ٹی آئی ارکان پر مشتمل مضبوط اپوزیشن حکومت کو چلنے نہیں دے گی۔ خیبر پختونخوا کی جانب سے دھمکیوں کا کیسے مقابلہ کیا جائے گا؟ ایمرجنسی یا گورنر راج سے صورتحال سنبھل سکے گی؟ بہت سے سوالات ان فیصلوں کے منتظر ہیں جو آئندہ چند دنوں میں متوقع ہیں۔

تبصرے بند ہیں.