وہ بڑی سرد اور خوفناک رات تھی، برفباری کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر شے نے برف کی سفید چادر اوڑھ لی تھی۔ جنگل تھا، خوف تھا، سناٹا تھا اور اس سناٹے میں آگے بڑھتا ہوا ایک کمزور اور ڈرپوک انسان تھا۔ میرے چاروں طرف اندھیرا تھا، جنگل کی خوفناک آوازیں تھیں، سامنے لمبے لمبے سائے تھے اور اس سائے میں کھڑا کوئی خوفناک بھوت میری بیوقوفی پر ہنس رہا تھا۔ راستے میں بندروں کے غول آتے میری ڈرپوک حرکتوں کی نقل اتارتے اور تالیاں بجاتے ہوئے جنگل میں گم ہو جاتے تھے۔ جنگل میں انتہا کی سردی تھی لیکن اس سردی کے باوجود میرے ہونٹ خشک تھے اور میرے جسم پر پسینے کے قطرے خاموش ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔ میں قدم اٹھاتا تو میرے پاؤں کی سرسراہٹ مجھے بجلی کی کڑک سے زیادہ خوفناک لگتی تھی۔ میں نے ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا، اچانک جنگل کے ایک کونے سے گہرے سیاہ بادل اٹھے اور آسمان پر چھا گئے، تیز بارش شروع ہوئی اور میرا خوف بڑھتا چلا گیا۔ بارش میری کمزوری ہے اور جب بھی بارش ہوتی ہے میں اپنے گھر کی چھت پر چلا جاتا ہوں اور بارش کے قطروں سے کھیلتا ہوں، ان سے باتیں کرتا ہوں لیکن آج زندگی میں پہلی بار جنگل کی اس بارش سے مجھے خوف آنے لگا تھا۔ میرے لیے واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی اس لیے میرے پاس آگے بڑھنے اور جنگل میں گم ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے کچھ وظائف پڑھے، خود کو تسلی دی اور اپنا سفر جاری رکھا۔ میں نے بمشکل دس منٹ کا فاصلہ طے کیا تھا اچانک دائیں جانب مجھے ایک جھونپڑی دکھائی دی، جھونپڑی دیکھتے ہی میری عمر دوگنی ہو گئی اور میرا چہرہ اس شکاری کی طرح کھل اٹھا جو اپنے شکار کو جال میں پھنستے ہوئے دیکھ کر مسکراتا ہے۔ میں رفتہ رفتہ آگے بڑھا اور دروازے تک پہنچ گیا، دروازے پر دستک دی لیکن میری دستک کی آواز آندھی اور بارش کے شور میں گم ہو گئی۔ پانچویں دستک کے بعد دروازہ کھلا، سامنے ایک ضعیف العمر اور سفید ریش بابا جی کھڑے تھے، میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر جھکایا اور آگے بڑھ کر سلام کیا۔ شاید میں ٹھیک جگہ پہنچ گیا تھا مجھے اسی جھونپڑی کی تلاش تھی اور میں نے اسی جھونپڑی کے لیے اتنا خطرناک سفر طے کیا تھا۔
بابا جی سے میری پہلی ملاقات جنوری 2014 میں ہوئی تھی اور اب میں دوسری بار ان کے در پر حاضر ہوا تھا، میں جھونپڑی میں داخل ہوا، انہوں نے ایک طرف سامان رکھنے کا اشارہ کیا اور گرم پانی کا برتن میرے سامنے رکھ کر بولے ’’بیٹا پہلے آپ نماز پڑھ لو باقی گفتگو ہم بعد میں کریں گے۔‘‘ میں نے نماز پڑھی اور بابا جی کے پاس چلا گیا، وہ اپنے ذکر و اذکار میں مشغول تھے اور میں خاموشی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور مختصر سی دعا کے بعد میری طرف متوجہ ہو گئے۔ میرے من میں کچھ سوالات تھے اور میں ان سوالات کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا، جنگل تھا، خوفناک آوازیں تھیں، تیز آندھی اور بارش تھی اور اس بارش میں بھیگتی ہوئی یہ جھونپڑی تھی اور اس جھونپڑی میں ایک دیئے کی ٹمٹماتی روشنی میں بیٹھے میں اور بابا جی تھے۔ میں نے بات شروع کرنے کے لیے ہونٹ ہلائے ہی تھے کہ بابا جی نے مجھ سے پہلے سوال داغ دیا۔ ’’تم بتاؤ پاکستان کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے‘‘ مجھے اس اچانک سوال کی توقع نہیں تھی، میں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد عرض کیا ’’غربت اور بے روزگاری‘‘، بابا جی کے پاس شاید وقت کم تھا انہوں نے کوئی دوسری بات کیے بغیر خود ہی جواب دے دیا ’’غربت اور بے روزگاری نہیں محبت‘‘ میں ایک دم ہل کر رہ گیا، مجھے چار سو چالیس واٹ بجلی کا شدید جھٹکا لگا تھا، میرے چہرے پر ہزاروں سوالیہ نشان پڑ گئے تھے اور میں سراپا سوال بنا بابا جی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے میری کیفیت دیکھی تو خود ہی وضاحت شروع کی ’’تمہارے ملک میں سب سے زیادہ خودکشیاں محبت میں ناکامی کی وجہ سے ہو رہی ہیں، تمہارا میڈیا جو دکھا رہا ہے اور جس طرح کا ادب اس ملک میں تخلیق ہو رہا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا جسے اس ملک کی نوجوان نسل بھگت رہی ہے۔ یہ نوجوان نسل جس راستے پر چل نکلی ہے اس کا انجام بہت بھیانک اور خوفناک ہے‘‘۔ بابا جی کے الفاظ مجھ پر بجلی بن کر گر رہے تھے اور میں ان کی قوت مشاہدہ کی داد دیے بنا نہ رہ سکا۔ نوجوان نسل کا حصہ ہوتے ہوئے مجھے روزانہ کئی ایسے کیسز سے واسطہ پڑتا ہے جس میں کوئی میل یا فیمیل کسی دوسرے کی محبت میں گرفتار اور اس کے حصول کے لیے انتہائی قدم اٹھانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ میں روزانہ کئی ایسے چہروں سے ملتا ہوں جو میرے سامنے آہیں اور سسکیاں بھرتے ہیں۔ یہ اس وقت ہماری ینگ جنریشن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن دنیا کا کوئی ڈاکٹر، کوئی سائنسدان، کوئی صوفی یا کوئی بھکشو اس مرض کا علاج دریافت نہیں کر سکا، یہ مرض لاعلاج چلا آ رہا ہے اور آج تک کوئی جینئس اس کا علاج دریافت نہیں کر سکا۔
میں نے بابا جی سے اس مرض کے علاج کے متعلق سوال کیا، بابا جی نے تھوڑی دیر توقف کیا اور بڑے انہماک سے بولے ’’میرے پاس اس کا کوئی ڈائریکٹ علاج تو نہیں لیکن میں تمہیں اس کا متبادل بتا سکتا ہوں‘‘ میرے کان کھڑے ہو گئے اور میرا تجسس حدوں کو چھونے لگا، بابا جی گویا ہوئے ’’جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو وہ محبت بلا وجہ نہیں ہوتی اس کے پیچھے کچھ نفسیات، جذبات اور محرکات ہوتے ہیں اگر ہم ان نفسیات، جذبات اور محرکات پر قابو پا لیں یا انہیں درست سمت میں موڑ دیں تو اس کا علاج ممکن ہے۔ وہ جذبات اور محرکات حسن، مال و دولت، عہدہ، طاقت و اختیار اور تحفظ کا احساس ہیں، ہم کسی کے حسن کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں، کسی کے مال و دولت کی وجہ سے ہمیں محبت ہو جاتی ہے، کسی کا عہدہ ہمیں محبت پے مجبور کرتا ہے اور کبھی کوئی ہمیں اس قدر تحفظ کا احساس دیتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے اچھا انسان دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا۔ تو جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ہمارے ان جذبات اور ہماری نفسیات کی تسکین ہو رہی ہوتی ہے، یہ نفسیات، جذبات اور محرکات انسان کی فطرت میں شامل ہیں، محبت میں ہماری فطرت کو خوراک مل رہی ہوتی ہے اور ہمارے رویے اس سے تسکین پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے محبوب کے پاس حسن، طاقت، عہدہ اور اختیار نہیں رہتا تو ہمیں اس سے محبت نہیں رہتی ہم اس سے دور بھاگتے ہیں، ہمارا اس سے جو رومانس جڑا ہوتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے اور ہم اس کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔‘‘ وہ رکے اور سانس لینے کے بعد دوبارہ بولے ’’اب جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں انہیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ محبت کے پیچھے جو نفسیات، جذبات اور محرکات ہوتے ہیں وہ صرف عارضی ہیں اور کسی بھی وقت ان کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے، اس لیے یا تو ان جذبات اور محرکات کو دبا دیا جائے یا ان کا رخ اصل ماخذ کی طرف موڑ دیا جائے اور وہ اصل ماخذ اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اللہ کے پاس حسن بھی ہے، عہدہ، اختیار، طاقت اور دولت بھی اس لیے اگر محبت کا یہ رخ اس طرف موڑ دیا جائے تو اس سے زندگی میں بھی چین آ جاتا ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے‘‘۔ مجھے بابا جی سے ایک لاعلاج مرض کا نسخہ مل گیا تھا، میں نے بابا جی سے کچھ اور سوالات بھی کیے جن کا ان کا تذکرہ پھر کبھی۔
تبصرے بند ہیں.