نئی حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کر سکے گی؟

86

انتخابات کا مرحلہ طے ہو چکا ہے اب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ نون حکومت بنانے جا رہی ہیں کس کے پاس کتنے اختیارات ہوں گے اور کون سی وزارتیں ہوں گی یہ بھی سوچ لیا گیا ہے اگرچہ پی پی پی فی الحال کابینہ میں شامل نہیں ہو رہی مگر تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ ایک دو ماہ کے بعد کچھ وزارتیں لینے پر راضی ہو جائے گی یوں دونوں مل کر ”عوامی خدمت“ کا آغاز کریں گی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت وطن عزیز مختلف بحرانوں میں گھرا ہوا ہے بالخصوص اسے معاشی بحران نے بہت پریشان کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی نیا ٹیکس لگایا جارہا ہے بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بحران پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے باوجود خزانہ نہیں بھر رہا آئی ایم ایف کی قسطوں کی ادائی کی پریشانی الگ ہے لہذا نئی حکومت جس نے انتخابی عمل کے دوران عوام کو با آواز بلند اپنے جلسوں میں کہا کہ وہ جب اقتدار میں آئے گی تو خوشحالی کے در وا ہونا شروع ہو جائیں گے ہر طرف بہار کا سماں ہو گا ہر چہرہ دمک رہا ہو گا یعنی وہ محسوس کریں گے کہ ان کی حکومت ان کے مسائل حل کرے گی لہذا اب جب پی پی پی اور مسلم لیگ نون متحد و متفق ہو کر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے جا رہی ہیں بلکہ بیٹھ چکی ہیں تو امید کی جانی چاہیے کہ وہ کوئی بڑا ریلیف ضرور دیں گی یہ دونوں جماعتیں تجربہ کار ہیں جہاں دیدہ ہیں اگرچہ ماضی میں یہ مصلحتوں کا شکار رہی ہیں ڈیرھ برس کی حکومت میں تو یہ بالکل غیر عوامی دکھائی دیں مگر اب یہ طرز عمل نہیں اختیار کریں گی کہ مسائل سے چشم پوشی کی کوئی گنجائش نہیں۔
پی پی پی کی قیادت نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئے گی تو بجلی تین سو یونٹس مفت دے گی مہنگائی کا خاتمہ انصاف کا علم بلند کرے گی قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے گی اسی طرح مسلم لیگ نون کی قیادت نے بھی دوسو یونٹس مفت دینے کا وعدہ کیا دیگر مسائل کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ وہ حل ہوں گے۔
میاں نواز شریف کی آمد سے پہلے ان کے ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھاکہ نواز شریف آئیں گے تو مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے بیرونی سرمایہ کاری کا آغاز ہو جائے گا۔لہذا ان دونوں جماعتوں کو اپنے وعدوں کا پاس کرنا ہو گا وگرنہ عوام ان کو نظر انداز کر دیں گے حالیہ انتخابات میں بھی وہ دیکھ چکی ہے کہ پی ٹی آئی نے ان سے ووٹ بھی زیادہ لئے اور نشستیں بھی یہ الگ بحث ہے کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی؟ ہاں تو نئی حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ کوئی بہانہ بھی تراش سکتی ہیں گرگٹ کی طرح رنگ بھی بدل سکتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے دونوں ایک دوسرے پر کیسے کیچڑ اچھال رہی تھیں پی پی پی کے سربراہ تو سخت ترین الفاظ میں نواز شریف پر تنقید کر رہے تھے ویسے لوگوں نے ان کے کہے پر یقین نہیں کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ نورا کشتی ہے؟
بہر حال اس وقت معاشی سیاسی اور سماجی استحکام کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے یہاں ہم یہ عرض کریں گے کہ جب دونوں جماعتیں عوام کی بہتری و فلاح کے لئے کچھ کرنا چاہ رہی ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے اکیلے ان کے بس میں نہیں ہوگا یہ تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف مل کر ہی معاشی بحالی کا انتظام ہو سکتا ہے ویسے بھی سب کو مل کر چلنا اس لئے بھی لازمی ہے کہ دنیا کو دکھایا اور بتایا جاسکے کہ وہ آپس میں اختلاف رکھنے کے باوجود متحد ہیں مگر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ان دو حکمران جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہو گی کیونکہ اسے اپنی حکومت جو اچھی بھلی چل رہی تھی کے گرنے کا بہت رنج ہے وہ اس زخم کو نہیں بھول رہی اس کا کہنا ہے کہ اس کے اقتدار میں جی ڈی پی کی شرح چھ اعشادیہ دو فیصد تھی مہنگائی شدید نہیں تھی اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی صحت کارڈ پناہ گاہیں اور احساس پروگرام وغیرہ سے لوگوں کو سکھ کا سانس مل رہا تھا مگر عدم اعتماد کے ذریعے اس کی حکومت کو فارغ کر دیا گیا لہذا اب وہ ان کے ساتھ کیسے بیٹھے لہذا ان دو جماعتوں ہی کو مسائل حل کرنا ہیں اور معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔
ان کے پاس ذاتی دولت کے بھی انبار ہیں اور ان میں عوامی بہتری کا جزبہ بھی موجزن ہے لہذا وہ اپنے خزانے سے قومی خزانہ بھر سکتی ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت کی لکیر کے نیچے سے اوپر لا سکتی ہیں پھر یہ جو انتہا کو پہنچی ہوئی بے چینی ہے اس میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے ہمیں امید ہے کہ اب یہ حکمران جماعتیں اپنے تمام وعدے وفا کریں گی کیونکہ انہیں ماضی کی کوتاہیوں کا پوری طرح فہم و ادراک ہے کہ ان کی وجہ ہی سے انہیں پی ٹی آئی نے سیاسی نقصان پہنچایا ہے لہذا ان کی حکومت فلاحی و رفاہی منصوبے پیش کرے گی اور پی ٹی آئی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دے گی کہ حکومت عوام کے لئے کچھ نہیں کر رہی یہ کہ خزانہ خالی کر دیا وغیرہ وغیرہ جاوید خیالوی کا خیال ہے کہ تبدیل اب بہت کچھ ہو گا لہذا اگلے پانچ برس بھی
وہ حکمرانی کے مزے لوٹے گی اور پی ٹی آئی کی مقبولیت واضح طور سے کم ہو جائے گی مگریہاں یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ جب حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لیتی ہے تو اس کی کڑی شرائط بھی ساتھ ہوتی ہیں تو خوشحالی کیسے آئے گی اس نے تو اب بھی جب نگران حکومت ہے بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے کا حکم صادر کیا ہے جس سے آنے والے دنوں میں ہا ہا کار مچ جائے گی دیہاڑی دار طبقہ اور ملازمین تو پہلے ہی پسے ہوئے ہیں مزید پسیں گے سرکاری ملازمین کی تو مختلف مدات میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں پنشرز بھی رْل رہے ہیں انہیں ایک بوجھ سمجھا جا رہا ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئندہ پنشن سسٹم ختم کر دیا جائے گا؟ حرف آخر یہ کہ غریب عوام کو انتہائی اذیت و تکلیف کا سامنا ہے وہ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کی کھال ادھیڑ ی جا رہی ہے مگر افسوس کہ اہل اختیار واقتدار کو اس کا ذرا بھر بھی احساس نہیں۔انہیں اقتدار چاہیے تھا وہ مل گیا ہے مگر ان کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہیے کہ اب وہ ڈلیور کریں گے تو لوگوں کے دل جیتیں گے بصورت دیگر وہ اور بھی غیر مقبول ہو جائیں گے پھر عوامی راج کو آنے سے روکنا ان کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.