یہ درست ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں البتہ یہ تصور کر لینا کہ حکومتی تشکیل ہی ناممکن ہو گئی ہے، غلط ہے۔ دور کیوں جائیں پی ڈی ایم محض تین ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بنا کر بڑے آرام سے سولہ ماہ گزار گئی۔ اب بھی حکومتی تشکیل میں کوئی امر مانع نہیں تھا البتہ صورتحال میں تاخیر کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا بہتر سودے بازی کے لیے چند دن نخرے کے طور پر بلاول بھٹو کا دو برس کے لیے وزیراعظم نہ بننے اور وزارتیں نہ لینے کا اعلان کرنا تھا، مگر سیاسی نبض شناس پُرامید تھے کہ ناں کا مطلب ہاں ہی ہے۔ بظاہر انکار کے باوجود پسِ پردہ مرکز سمیت صوبہ پنجاب کے اقتدار سے حصہ لینے کے لیے جاری گفت و شنید سے بھی اسی جانب اشارہ ہو رہا تھا اب تو مسلم لیگ ن اور پی پی میں شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے پا گیا ہے جس کے مطابق شہباز شریف دوسری بار وزیرِ اعظم جبکہ آصف زرداری صدر کا منصب سنبھالنے والے ہیں حالانکہ کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیرِ اعظم بنایا جائے مگر وہ جس طرح ہوتا ہے کہ بڑی کے لیے رشتہ لیکر آنے والے تابعدار چھوٹی کو پسند کر جاتے ہیں، بس ایسی ہی کچھ بات ہوئی ہے۔ بڑی امیدیں و توقعات لیکر آنے والے کو اقتدار چھو کر گزر گیا ہے اور حالات دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی نواز شریف افہام و تفہیم پر راضی ہیں۔
اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے ممبرانِ قومی اسمبلی کی بات کریں تو وہ 140 کے لگ بھگ ہیں خصوصی نشستیں بھی شمار کر لی جائیں تو یہ تعداد 180 ہو سکتی ہے ایم کیو ایم، جمعیت، ق لیگ کو ساتھ ملا کر سادہ اکثریت تو ایک طرف دو تہائی اکثریت ثابت کرنا بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ انتخابی نتائج کی روشنی میں اِس وقت اتحادی حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ تو نہیں اسی لیے مسلم لیگ ن مرکز سمیت پنجاب میں بھی شراکت اقتدار پر آمادہ ہوئی ہے۔ مرکز سمیت تمام صوبوں میں اتحادی حکومتیں تشکیل پانے کا امکان ہے۔ کے پی کے جہاں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت حاصل ہے وہاں بھی چند ایک چھوٹی جماعتیں شاملِ اقتدار ہو سکتی ہیں۔ ایسا ملک میں پہلی بار نہیں ہو رہا کہ اتحادی حکومتیں تشکیل پانے والی ہیں بلکہ ماضی میں ایک سے زائد بار ایسا ہو چکا۔ دنیا میں جہاں جہاں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے نہ صرف اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں بلکہ اتحادی حکومتیں نہ صرف مسائل حل بلکہ سیاسی استحکام کا بھی موجب بنتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ تجربہ کیسا رہتا ہے، پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
اکثریتی جماعت کو اقتدار سے زیادہ دیر باہر رکھنا ممکن نہیں ہو سکتا کئی ممالک میں ایسا ہوا کہ بڑی جماعت کو چھوٹی جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سے باہر کر دیا لیکن جلد ہی حیلے بہانے ختم ہوئے اور اکثریتی جماعت اقتدار میں آ گئی۔ پاکستان میں بھی اب تو اتحادی حکومت یہ معرکہ سر کر لے گی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ جب کبھی ملک میں عام انتخابات ہوئے پی ٹی آئی موجودہ اکثریت سے بھی زیادہ حیثیت سے پارلیمان میں جلوہ افروز ہو سکتی ہے۔ اسی لیے بہتر تو یہ ہے کہ متوقع حکومت ملک میں عدم برداشت کا رویہ ختم کرنے کے لیے سیاسی انتقامی کارروائیاں ختم کرنے کا لائحہ عمل اپنائے، ایسا ہونے سے سیاسی عدمِ استحکام کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے نیز سرمایہ کاری کے لیے بھی ماحول سازگار ہو گا۔ اِس کے لیے بڑے ظرف کے ساتھ سیاسی فوائد سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہو گا۔ اگر حسبِ روایت سیاسی فوائد پر نظر رکھی گئی تو سیاسی استحکام کا خواب پورا ہونا مشکل ہے۔ سیاسی افہام و تفہیم کے لیے آصف زرداری کی صلاحیتوں سے کام لینے سے اکثریتی جماعت کے خدشات آسانی سے دور کیے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں بحیثیت صدرِ مملکت وہ اپنے شدید ترین مخالفین کو نہ صرف ساتھ ملانے میں کامیاب رہے بلکہ وہ قربت اب تک برقرار ہے۔ ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کا ووٹ بینک فیصلہ کُن حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ پی ٹی آئی سے وابستہ یہ نوجوان جن کی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہیں، کو اگر مسلسل نظر انداز رکھا گیا تو ری ایکشن بھی اسی حساب سے زیادہ سخت آ سکتا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اقتدار و اختیار پر نظر رکھتے ہوئے اکثریت کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ اب ترک کر دیا جائے۔
ملک کے اگر بڑے مسائل کا ذکر کیا جائے تو قرضوں میں جکڑی تباہ حال معیشت متوقع حکومت کی اولیں توجہ کی متقاضی ہے۔ اِس وقت اندرونی اور بیرونی قرضوں اور واجبات کا حجم 77660 ارب ہو چکا ہے یہ رقم ڈالر میں 271 ارب بنتی ہے۔ دراصل ہر آنے والی حکومت نے پیداواری معیشت بنانے کے بجائے قرض لیکر حکومت کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی جس سے حالات دگرگوں ہوتے گئے۔ معیشت کو پیداواری نہ بنانے اور معاشی شرح نمو میں بہتری نہ لانے سے ملکی و غیر ملکی قرضوں میں ہونے والا اضافہ ایسا بوجھ بن گیا ہے جو معاشی استحکام کی راہ میں ناقابلِ عبور رکاوٹ ہے۔ متوقع حکومت نے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنا اور نفرت میں بدلنے سے روکنا ہے تو اُسے ماضی کی حکومتوں کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے اور کوسنے کے بجائے معیشت بہتر بنانے پر توجہ دینا ہو گی۔ مزید قرضے حاصل کرنے اور عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں بے یار و مددگار چھوڑنے سے مہنگائی روکنے اور معیشت بہتر بنانے جیسے مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔
ایک دہائی قبل پاکستان کا فی کس قرضہ 823 ڈالر تھا جو 2023 میں 1122 ڈالر ہو گیا اِس دوران فی کس آمدنی میں بھی گراوٹ آتی گئی۔ 2011 میں جو فی کس آمدن 1295 ڈالر تھی 2023 میں چھ فیصد کم ہو کر 1223 ڈالر رہ گئی۔ یہ آمدنی سے قرض بڑھنے کی طرف اشارہ تھا لیکن کسی حکومت نے ادراک نہ کیا اب تو حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملکی آمدن کا پچاس فیصد سے زائد قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال ملکی معیشت کے لیے کسی حوالے سے بھی اچھی نہیں بلکہ تشویشناک ہے متوقع حکومت نے رواں مالی سال کے دوران بیرونی ادائیگیوں کے لیے کم از کم پچیس ارب ڈالر کا انتظام بھی کرنا ہے۔ اگر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مدِ نظر رکھیں تو یہ رقم تین گنا سے بھی زیادہ ہے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اربوں ڈالر قرض ادائیگی کے لیے بیرونی مدد کی ضرورت ہے۔ اسی لیے حکومت کو لامحالہ عالمی مالیاتی اِداروں سے مزید قرض لینا ہو گا۔ ایسے حالات میں جب متوقع حکومت کے معاشی ماہرین ابھی سے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر لینے کے لیے اگلے ماہ مارچ یا اپریل میں بات چیت کی تیاریوں میں ہیں آئی ایم ایف کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بانی پی ٹی آئی خط لکھ چکے ہیں تاکہ مذاکرات سے قبل آئی ایم ایف جیسا مالیاتی اِدارہ دھاندلی والے حلقوں کے آڈٹ کا مطالبہ کرے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت سیاست چمکانے کے لیے ہر حربہ اختیار کر سکتی ہے جسے کسی صورت سراہا نہیں جا سکتا۔ متوقع حکومت کی طرف سے عالمی مالیاتی اِداروں سے قرض لینے کے لیے شرائط تسلیم کرنا اور مہنگائی کو بے لگام چھوڑ دینا مقبول ترین اپوزیشن کے لیے آئیڈیل صورتحال کا باعث بن سکتا ہے اور وہ مزاحمت و احتجاج کی طرف آ کر حکومت کو زچ کر سکتی ہے۔ کیا ہونے جا رہا ہے؟ پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
تبصرے بند ہیں.