الٹی ہو گئیں سب تدبیریں

62

ہمارے لئے، عام پاکستانی کے لئے، حالات و معاملات درست ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں واقعات تو ایسا کچھ ہی بن رہے ہیں کہ کچھ بھی بہتر ہونے نہیں جا رہا ہے سیاست کا کھیل بگڑتا چلا جا رہا ہے بساط سیاست بچھانے والے ناکام نظر آ رہے ہیں سیاستدان ویسے ہی کچھ کر رہے ہیں جیسا وہ کرتے آئے ہیں۔ نا اتفاقی، کشمکش، ہوس اقتدار، عہدوں کی بندر بانٹ اور بیان بازی۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2024 کسی نظریہ فکر یا کسی سوچ کی بنیاد پر نہیں لڑا۔ کسی سیاسی جماعت نے کوئی بیانیہ تشکیل نہیں دیا ہے بلکہ محض جذباتیت کو ابھار کر للکار پر انتخابی مہم چلائی، ایک دوسرے پرکیچڑ اچھالتے رہے۔ 2021 میں سیاسی قوتوں نے،پارلیمان میں جسں یکجہتی کا مظاہرہ کیا پی ڈی ایم کی 12 جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پاکستان کی تاریخ کی نااہل اور کرپٹ ترین حکومت کو چلتا کیا توایسے لگا کہ جمہوریت کامیاب ہوگئی ہے۔ سیاست دان، بالغ ہوگئے ہیں اب پاکستان کی قسمت بدلے گی عام آدمی کے مسائل حل ہونے لگیں گے لیکن ہم نے دیکھا کہ شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے 16 ماہ کے دوران عوام کے کڑاکے نکال دیئے۔ اتنے کڑاکے نکالے کہ عوام کی بس ہوگئی۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی آڑ میں عامتہ الناس کو حقیقی ڈیفالٹ سے ہمکنار کر دیا۔ مہنگائی مہنگائی اور مہنگائی نے عوام کو نڈھال کر دیا۔ اتحادیوں نے بالعموم اور پیپلز پارٹی نے بالخصوص 16 ماہی دور حکمرانی سے خوب انجوائے کیا ہمارے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تو شاید عالمی دوروں سے فارغ ہی نہیں ہو سکے وہ پاکستان کا سفارتی تشخص بنانے، سدھارنے اور چمکانے کے لئے مصروف رہے انکے طوفانی دوروں سے ملک کا امیج بنایانہیں لیکن وہ اپنا امیج بنانے میں کامیاب رہے۔ ان دوروں نے انہیں پراعتماد بنایا اور وہ وزیراعظم بننے کے خواب بننے لگے مسلم لیگ ن کا سیاسی اثاثہ الٹ پلٹ ہو گیا۔ کہا گیا کہ نواز شریف آکر جب مہم چلائیں گے توایک مومینٹم پید اہوگا۔ عوام متحرک ہونگے اور ن لیگ ترقی کے ایجنڈے پر آگے بڑھے گی۔

نواز شریف وطن واپس تشریف لائے شاندار استقبال ہوا۔ مینار پاکستان میں انہوں نے امید افزا گفتگو کی۔ ان کے آنے سے پہلے ہی یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا تھا کہ انکی ڈیل ہوگئی ہے اسٹیبلشمنٹ انہیں اقتدار میں لانے کا فیصلہ کر چکی ہے نواز شریف جب پاکستان آئے تو ڈیل، کھل کر سامنے آنے لگی۔ نادرا کی وین جب ایئر پورٹ تک پہنچی اور نواز شریف کا بائیو میٹرکس ہوا تو ڈیل کا پروپیگنڈہ اونچے سروں میں ہونے لگا۔ مسلم لیگی قیادت نے بھی انتخابی مہم چلانے میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لی شاید انہیں یقین تھا کہ عمران خان اور اسکی جماعت تو زیر عتاب ہے حکومت ہماری ہی بننے جا رہی ہے انہوں نے بیانیہ تشکیل دینے میں ہی تساہل سے کام لیا۔ پھر نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ منقسم مینڈیٹ نے معاملات بگاڑ دیئے۔ عمران خان کے آزاد امیدواران، مرکز میں نمبروں کے طورپر ابھرے۔ پنجاب میں نمبر 2 کے طور پر انکی پوزیشن مستحکم نظر آئی۔ کے پی میں کلین سویپ کیا۔ مسلم لیگ کا حکومت سازی کا خواب چکناچور ہو اہو گیا۔ نواز شریف نے حکومت سازی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ شہباز شریف کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے کی تیاریاں جاری ہیں مخلوط حکومت سازی میں سیاستدان بشمول ن لیگی وپیپلزپارٹی و دیگر کھل کھلا کر داؤ پیچ کھیل رہے ہیں عہدوں کی بندر بانٹ جاری ہے کوئی کہتا ہے وزیر اعظم کو ووٹ دیں گے، یہ یہ آئینی عہد ے لیں گے لیکن کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے گویا اقتدار کے مزے تو لوٹیں گے لیکن پالیسی سازی اور اس کے نتائج کی ذمہ داری نہیں لیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ تین سال کے لئے ایک اور باقی دو سال کے لئے دوسرا وزیر اعظم ہو جائے۔ ملک اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہو چکا ہے اور سیاستدان لڑرہے ہیں اقتدار کے حصے بخرے کرنے میں مصروف ہیں کسی کے پاس معاشی بہتری کا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے پاکستان نے 25 ارب ڈالر کی جو ادائیگیاں کرنا ہیں وہ کیسے ہو پائیں گی؟ مہنگائی کا جن بوتل میں کیسے واپس جائے گا؟ 300 یونٹ بجلی کیسے مفت دی جائے گی؟ کچھ پتہ نہیں ہے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔کہا جا رہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی بہتری نہیں آسکتی ہے بات اصولی طورپر درست ہے سیاسی استحکام بھی پائیدار معاشی ترقی کا باعث بنتا ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ انتخابات کے بغیر سیاسی جماعتوں کے بغیر بھی سیاسی استحکام لایا جا سکتا ہے ایوبی دور ہو یا جنرل ضیا الحق کامارشل لا اور جنرل مشرف کا دور حکمرانی بغیر مروجہ سیاسی عمل کے سیاسی استحکام لایا گیا معاشی استحکام بھی آیا۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ سیاسی عمل سے انتشار بڑھ رہا ہے عمران خان ایک بار پھرپورے عزم اور جمہوری طاقت کے ساتھ ملک کو انتشار اور عدم استحکام کی طرف لیجاتے نظر آ رہے ہیں۔ انتخابی نتائج حسب توقع نہیں آئے عمران خان ایک بار پھرایک ایسی طاقت بن کر سامنے آئے ہیں جو ملک کو سیاسی انتشار کی طرف لے کے جا سکتے ہیں وہ ابھی تک مزاحمتی پالیٹکس پر عمل پیرا ہیں۔ انتخابات سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھی وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ عمران خان کے مد مقابل سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ویسی کا ر کر دگی نہیں دکھا سکی ہیں جیسی ان سے توقع کی جا رہی تھی مسلم لیگ ن کی سیاسی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے انہوں نے نہ تو طاقتور بیانیہ تشکیل دیا۔ نہ عمران خان کے بیانیے کا توڑ کیا۔ پروپیگنڈے کے میدان میں بھی پٹ گئے۔ ن لیگ کی ترجمان مریم اور نگ زیب اس ناکامی کا اعتراف بھی کر چکی ہیں۔ مخلوط حکومت کا 16 ماہی تجربہ سود مند ثابت نہیں ہوا ہے اور اب مخلوط حکومت کے بارے بھی مثبت توقعات نہیں ہیں۔ الیکشن 2024 کے نتائج متنازع ہوتے چلے جارہے ہیں عمران خان کا بیانیہ زورو شور سے دہرا یا جارہا ہے اس کے حوالے سے حکومتی، ریاستی اور دیگر اداروں کی کار کردگی مایوس کن ثابت ہو چکی ہے۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔

تبصرے بند ہیں.