مریم وزیر اعلیٰ اندازوں کی تصدیق!

62

انسانی معاشرہ میں مرتبہ ومقام خداداد صلاحیتوں کی دین ہوتا ہے جبکہ غلبہ واستبداد طاقت کے زور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی میرے لیے بالکل کوئی خلاف توقع یا اچینبھہ نہیں ہے، کیونکہ میں عرصہ سے مریم کی ذہانت ، معاملہ فہمی پراعتماد گفتگو ، حاضرجوابی کی صلاحیتوں کا شاہد ہوں، اگر کوئی اسے خوشامد سمجھے تو اس کاشاید سلسلہ جنرل مشرف کے ۔۔۔۔۔۔اور بزدلانہ آمریت کے دور سے جاری ہے، جب مریم نواز ملکی سیاست تو کیا جماعتی سیاست میں بھی دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ کیپٹن صفدر کے بھی سیاست میں حصہ لینے کی رواداد نہ تھیں۔ تب ان کے نزدیک سیاست Night Mare تھی۔ ظاہر ہے دادا، والدہ، بڑی بھابھی اور بچوں کے ہمراہ نظر بندی کی اذیت میں مبتلا کسی بھی گھریلو خاتون کیلئے ”ڈراؤنا خواب“ سمجھنا عین فطری ہے۔
ان حالات میں شریف فیملی کی نظربندی خواتین تک رسائی ایک صحافی کی پیشہ ورانہ خواہش یا تگ ودوبھی فطری تھی۔ جس کی تکمیل بیگم کلثوم کے تب کوارڈنیٹر فرخ شاہ اور ملازمین کو سودا سلف کے آنے جانے کی اجازت تھی۔ فرخ شاہ مجھے جاتی عمرہ کے بچوں کے ”عربی ٹیچر“ کا روپ دے کر کئی ایجنسیوں کے اہکاروں اور فوجیوں کے حصار سے نکال کر اندر لے جانے میں کامیاب ہوگئے ۔ پھر ”عربی ٹیچر “ چار ، پانچ روز کے بعد بچوں کی پڑھائی میں پیش رفت کا جائزہ لینے جاتا، اس طرح بیگم کلثوم نواز ، مریم نواز اور سائرہ حسین نواز کے انٹرویو کی سبیل نکل آئی تینوں خواتین کے زندگی کے پہلے انٹرویو ”ہفت روزہ تکبر“ میں ترتیب وار شائع ہوئے۔ اس کے جدہ روانگی تک بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز سے مسلسل رابطہ رہا۔ میں شاہد واحد صحافی ہوں جسے محترم میاں شریف ، بیگم کلثوم نواز، مریم نواز ، سائرہ حسین اور کیپٹن صفدر کے ہمراہ فرشی دسترخوان پر دومرتبہ رات کا کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ اس تمام عرصہ میں مریم نواز سے گفتگو کے بے شمار مواقع ملے جس سے ان کی شخصی خوبیوں اور ملکی وعالمی سیاسی اور دیگر معاملات پر گہری نظر رکھنے اہلیت کا اندازہ ہوا جاتی عمرہ میں نظر بندی کے دوران آرمی چیف کی تبدیلی کے حوالے سے سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا۔ دیکھیں جی، اگر ابو آرمی چیف تبدیل نہ کرتے تب بھی یہی صورتحال ہوتی۔ میرے خیال کے مطابق یہ ایک طے شدہ منصوبہ تھا دوہفتے پہلے ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے گارڈز تبدیل کردیئے گئے چراٹ سے اضافی دستے منگواکر وزیراعظم ہاؤس میں آرمی کی نفری میں اضافہ کردیا گیا یہ پہلے سے طے شدہ تھا جب آپ واقعات کی کڑیاں ملائیں گے تو ثابت ہو جاتا ہے آرمی چیف کو تبدیل کرنے کا فیصلہ ملکی مفاد میں کیا گیا تھا۔ میں نے سوال کیا آپ سیاسی معاملات پر اظہار خیال کرتی رہتی ہیں جو آپ کی سیاست سے دلچسپی کا مظہر ہے۔ سیاسی حلقوں میں ایک رائے ہے مسلم لیگ کو موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی سے رابطہ کرنا چاہئے ۔ کیا ایسی جماعتوں میں جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف رہی ہیں اتحاد نامناسب ہے۔ مریم نے جواب دیا، دیکھیں پہلی بات تو یہ کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے دوسری بات یہ کہ اگر یہ اتحاد کریں گے تو پاکستان کی خاطر کریں گے فوجی حکمران سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں میں سمجھتی ہوں ملک بچانے کیلئے اتحاد میں کوئی ہرج نہیں ہے، ہمیں اختلافات کے باوجود تسلیم کرنا پرے گا۔ پاکستان میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو ہی دوسیاسی قوتیں ہیں انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کا نتیجہ بہت برا ہوگا۔ ان سے میاں اظہر کے حوالے سے سوال کیا گیا تو مریم نے گہرا سانس لے کر جواب دیا میں پہلے سوچتی تھی ان کے ساتھ سب قریبی تعلقات تھے ہم ان کے ساتھ دنیا کے کئی ملکوں میں گئے ہیں مجھے انہوں نے بیٹی بنایا ہوا تھا جب ان کا رویہ ایسا ہوا تو سمجھ نہیں آیا انہوں نے پچھلے سارے تعلقات بھلا دیئے۔ یہ تو ایسا وقت تھا وہ آتے اور ہمارے سروں پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے

انہیں تو اس وقت حضرت حر کی سنت ادا کرنی چاہئے تھی۔
یہ انٹرویو پوری تفصیل کے ساتھ ہفت روزہ تکبیر میں شائع ہوا تھا اس کے حوالے سے ایک ”خاص سطح“ پرنظر بندی کے دوران مریم تک رسائی پریشانی کا باعث بنی اور مجھے سوال وجواب کے مرحلہ سے گزرنا پڑا تھا۔

بیگم کلثوم نواز نے تفصیلی بیان کی کس طرح ماڈل ٹاؤن میں ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری ، چند روز یہاں نظر بندی ، تمام رابطے منقطع، پھر ایک روز انہوں نے جرا¿ت کا مظاہرہ کیا گیٹ پر آکر فوجیوں سے کہا کہ یہ کھولو مجھے جاتی عمرہ جانا ہے اعلیٰ سطح پر رابطے کئے گئے اور گیٹ کھول دیا گیا یہ مریم نواز کے ضرب المثل بننے والے جملے کا عملی مظاہرہ تھا روک سکو تو روک لو۔“

2008ء کو میں روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ ہو گیا میرا خیال تھا کہ کسی وقت سیاسی اعتبار سے (ن) لیگ اونچ نیچ کا شکار ہوئی تو مریم نواز اہم کردار ادا کریں گی۔ اس سوچ کے زیراثر ”مریم (ن) لیگ کیلئے ترپ کا پتہ“ کے عنوان سے کالم لکھا تو مریم نے کہا، ارے یہ کیا لکھ دیا میرا تو ذرا ارادہ نہیں سیاست میں آنے کا۔

23 نومبر 2011ء کو” مریم نواز کی سیاست میں آمد“ کے عنوان سے تحریر کردہ براہ راست کے اقتباسات۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے وادی سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اگرچہ مریم بے حد گھریلونوعمر خاتون ہیں مگر بلاکی ذہین، حاضر جواب ملکی وغیرملکی سیاست پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ جس کا اندازہ اس ناچیز کو ان سے ان کے گھر میں کئی بار گفتگو سے ہوا۔ مریم نواز کی سیاست تربیت میں میاں نواز شریف کی عملی سیاست سے زیادہ بیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد سے ہے۔
دوسرا اقتباس ۔ مریم نواز اپنی سوچ اور نظریات کے اعتبار سے مکمل پاکستانی ہیں۔ نجی گفتگو میں بھی ان کا عام موضوع پاکستان کی ہمہ جہت ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود ہوتی ہے اس موضوع پر وہ بلاتکان لمبی گفتگو کرسکتی ہیں۔ وہ ہر ملکی و غیر ملکی معاملے پر سیاسی ہوں، معاشی ہوں، عسکری نوعیت کے ہوںیا سفارتی پہلو لئے ہوئے ہوں، وہ ان پر میاں نواز شریف سے باقاعدگی سے تبادلہ خیال کرتی ہیں، اور اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔

تیسرا اقتباس ۔ مریم نواز نے فن خطاب حاصل کرنے کی عملی تربیت نہیں لی، لیکن وہ بہت سے لوگوں (بالخصوص خواتین کے اجتماعات میں) جس اعتماد کے ساتھ خطاب یا بات کرتی ہیں میں سمجھتا ہوں اس کے نتیجے میں کسی بڑے جلسے کی مقررہ ہونے میں کوئی دقت محسوس نہیں کریں گی اس طرح کہا جاسکتا ہے وہ میدان سیاست میں اگرچہ نوآموز ہیں مگر خاصی تربیت یافتہ سیاستدان کی حیثیت سے قدم رکھیں گی۔

8مئی 2013ء کو نوائے وقت میں براہ راست کا ایک اقتباس ، این اے 120 کا تیسرا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس حلقے کے سب سے اہم امیدوار میاں نوازشریف کی انتخابی مہم بھی ایک خاتون (مریم) ہی چلا رہی ہیں اگرچہ مریم نواز عملی سیاست کا تجربہ نہیں رکھتیں لیکن وہ جس خوبصورتی اور اعتماد کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہیں اس نہ صرف ان کے اندر چھپا ہوا سیاستدان سامنے آگیا ہے بلکہ میاں نوازشریف بھی اس حلقہ سے بے نیاز ہرکر ملک بھر پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کررہے ہیں۔“

13 جون 2016ء کو نوائے وقت میں شائع ہوا میرا براہ راست کا اقتباس، اس سے بہتر ہے مریم نواز کو وزیر خارجہ بنا دیا جائے ۔ اس بی بی نے ایک تو امریکی خاتون اول کی موجودگی میں جس اعتماد کے ساتھ خطاب کیا اور حال ہی میں مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتوں اور ان سے گفتگو نے بھی ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے وزیراعظم کو اس سے دوفائدے حاصل ہوں گے ایک تو ان کا بوجھ کم ہوجائے گا دوسرے کسی دوسرے ساتھی کے مقابلے خارجہ معاملات میں اپنے دل کی بات کھل کر کرسکیں گے“۔

10 نومبر 2016ء کے براہ راست کا عنوان ”مریم نواز نشانہ کیوں؟“ سے ایک اقتباس، بغور جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم سے زیادہ ان صاحبزادی مریم نواز نشانہ ہے کیونکہ اگر بالخصوص عدالتی فیصلے یا دیگر کسی وجہ سے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے تب بھی ان کی سیاست کا تسلسل برقرار رہے گا۔ مریم نواز جب سیاسی میدان میں باقاعدہ سرگرم ہوں گی تو رائے عامہ کیلئے انہیں نظر انداز کرنا مشکل ہوگا کیونکہ وہ واحد شخصیت ہیں جو پارٹی کو نواز شریف کی طرح آن بان سے چلا سکتی ہیں، کیونکہ وہ پارٹی کے ایسے لیڈر کے معیار پر پورا اترتی ہیں جو ذاتی کشش کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کی مقبولیت کا حصہ دار بھی بن سکتا ہو۔

مندرجہ بالا اقتباسات کا جائزہ لیا جائے تو مریم کی لمحہ موجودکی سیاست اور سیاسی رفت کے روشن امکانات کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں اپنے کئی برسوں پر مشتمل مشاہدات کی بنیاد پر میں نے جواندازے لگائے تھے وزیراعلیٰ کے منصب نامزدگی سے ان اندازوں کی تصدیق ہو گئی ہے اس لئے مریم کا وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونا میرے لیے اچھنبہ نہیں بلکہ ایسا نہ ہونا ضرور اچھنبہ ہوتا میری چشم تصور تو مریم کو وزیراعظم ہاؤس میں دیکھ رہی ہے۔
اسرار بخاری

تبصرے بند ہیں.