ملک بھر میں ہر شہر کی ہر گلی میں کم از کم ایک ایسی خاتون آج بھی مل جاتی ہے جو بغیر کسی میڈیکل رپورٹ کے دیکھے زچہ کا پیٹ دیکھ کر ہونے والے بچے کی جنس بتا دیتی ہے۔ اس دور کے بچے بھی کسی سے کم نہیں۔ سب باون ہاتھ کے ہیں۔ انتخابات سے قبل اس کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے کی جنس کے بارے میں سب کو خبر ہو چکی تھی، کسی بچے سے بھی پوچھتے کہ کس کی حکومت آ رہی ہے تو جواب ملتا ”مکسڈ ینڈنٹ“ ہو گا لیکن شریف حکومت ہو گی چھوٹے شریف صاحب یا بڑے شریف صاحب سے فرق نہیں پڑتا ابتدا میں بتایا گیا کہ نواز شریف آ رہے ہیں اور یوں چوتھی مرتبہ وزیراعظم پاکستان بنیں گے یہ ایک سیاسی ریکارڈ ہو گا آج مسلم لیگ کے اندر ایک طبقہ ناخوش ہے کہتے ہیں نواز دکھا کر شہباز دے دیا گیا ہے دانشور طبقے کا بھی کہنا ہے نواز ہو یا شہباز بات ایک ہی ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں، میرا خیال ہے فرق تو بہر حال ہے میرے شعر کے مطابق
دونوں کی ہے پرواز فقط ایک فضا میں
نواز کا جہاں اور ہے شہباز کا جہاں اور
یہ تبدیلی کیوں اور کیسے ہوئی اس حوالے سے کئی کہانیاں ہیں، کہانیاں سننے میں حرج ہی کیا ہے اب قوم کیلئے اس کے علاوہ پیچھے رہا ہی کیا ہے انہی سے دل بہلانا ہے، کہانی کے مطابق بعد از صدائے الٹ پلٹ جناب نواز شریف سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ آتے ہی سیاسی ثور پھونکیں گے جس کے نتیجے میں ن لیگ ڈیڑھ سو سیٹیں جیت لے گی اکثریت کیلئے 133 قومی اسمبلی کی نشستیں درکار تھیں یوں سادہ اکثریت گھر بیٹھے حاصل ہو جائے گی پھر کچھ اتحادیوں سے ملکر مزید اکثریت حاصل ہو جائے گی اور مرکز میں مضبوط حکومت بن جائے گی۔ قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت مل جاتی تو پنجاب اسمبلی میں حاصل کردہ سیٹوں کی تعداد مزید بڑھ جاتی، قومی اسمبلی کے حوالے سے ہدف حاصل نہ ہوا 75 سیٹیں جس طرح ملیں وہ سب کے سامنے ہے، جناب نواز شریف منجھے ہوئے سیاستدان اور بڑے آدمی ہیں انہوں نے اپنی تقریر میں واضح طور پر اعتراف کیا کہ ہمیں واضح اکثریت نہیں مل سکی لیکن ہم دوسری جماعتوں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ ن لیگ بہت پُرامید تھی کہ اسے حکومت بنانے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا نواز کی تقریر کو مخالفین نے اعتراف شکست کہا جبکہ چاہنے والوں نے وکٹری سپیچ سے تعبیر کیا۔ معاملہ کچھ ایسا تھا، کہا گیا۔ روکو مت، جانے دو، پڑھنے والوں نے اپنی خواہش کے مطابق پڑھا روکو، مت جانے دو، ن لیگ مذاکرات کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھی تو آصف زرداری صاحب نے بلاول بھٹو صاحب کیلئے وزارت عظمی مانگ لی ن لیگ میں جناب نواز شریف کے علاوہ مریم نواز بھی امیدوار تھیں، صورتحال اور سیٹوں کی تعداد کے پیش نظر مریم نواز اس دوڑ سے باہر ہو گئیں، اگلے مرحلے میں کہیں سے مشورہ آیا جناب نواز شریف ایک قدم پیچھے ہو جائیں اور شہباز شریف کو جگہ دے دیں۔ عرصہ دراز سے یہ بات سننے میں آ رہی تھی کہ اب شہباز شریف ہی قابل قبول ہیں ابتدا میں جو باتیں کہیں طے پاتی تھیں اس وقت اگر یہ بات طے نہ بھی تھی تو کم سیٹیں آنے کے بعد سامنے رکھ دی گئی جسے ماننے کے علاوہ اب کوئی اور چارہ نہ تھا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی سے کسی بھی بات پر سمجھوتہ نہ ہو سکا، معاملات طے ہو جاتے تو دونوں جماعتوں کے بڑے لیڈر اکھٹے بیٹھ کر اعلان کرتے کہ کیا کیا طے پایا ہے، بلاول بھٹو نے علیحدہ پریس کانفرنس کی جس سے تاثر واضح ہو گیا کہ اختلافات حل نہیں ہو سکے بعدازاں مزید بگاڑ سے بچنے کیلئے چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ پر اکٹھے ہوکر پریس کانفرنس ہوئی جس میں بلاول بھٹو موجود نہ تھے وہ ہوتے بھی کیوں ان کے سامنے سے کیک اٹھا لیا گیا وہ ایک ٹکڑے کیلئے کیوں موجود رہتے اس پریس کانفرنس میں مریم نواز بھی نہ تھیں جو ہر اہم انتخابی موقع اور میٹنگ میں اپنے ابا حضور کے ساتھ نظر آئیں حتیٰ کہ بالکونی سے کی گئی تقریر میں بھی وہ جناب نواز شریف کے ساتھ کھڑی نظر آئیں اس وقت تک خیال یہی تھا کہ انہیں وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کیا جائے گا اور بھٹو کی بیٹی بے نظیر کے بعد نواز شریف کی بیٹی مریم نواز وزیراعظم پاکستان کا منصب سنبھالیں گی، معاملات جس حد تک طے ہوئے ہیں اس حوالے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ کس نے کیا کھویا کیا پایا لیکن ایک بات واضح ہے کہ آصف زرداری صاحب نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے اور اگر بلاول بھٹو کو وزیراعظم نہیں بنایا جاتا تو پھر ان کے لئے کولیشن گورنمنٹ میں شامل ہو کر دس سے پندرہ وزارتوں میں بھی کوئی چاشنی نہیں یوں وہ اب وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کو ووٹ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں دیں گے لیکن حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور پی ڈی ایم حکومت کی طرح حکومت کی ناکامیوں کے شریک بھی نہیں بنیں گے۔ ن لیگ میں اپنے وزیر اعظم اور اپنے وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاملے پر جشن منایا جا رہا ہے لیکن انہوں نے بادی النظر میں گھاٹے کا سودا کیا ہے، پیپلز پارٹی کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کے اصول پر معاملات طے کر کے ایک مضبوط حکومت قائم کی جا سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم، باپ پارٹی ساتھ ہوتی تو اندازہ کیجئے اکثریت کیا ہوتی، اب کیا ہو گی اب انحصار ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتوں پر ہو گا جن کا اپنا الگ مزاج ہے، عمران خان نے یہ مزاج بھگتا ہے اب اسے ن حکومت بھگتے گی۔ ہر چھ ماہ بعد نئی فرمائش سامنے رکھی جائیگی۔ فی الحال تو صوبہ بلوچستان میں انتخابی نتائج پر شٹر ڈائون ہڑتال ہو چکی، کراچی میں جماعت اسلامی اور جی ڈی اے سراپا احتجاج ہیں، صوبہ خیبر اور پنجاب میں بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کم کیا گیا ہے آگے چل کر منظر نامہ کیا ہو گا۔
جمہوریت کے حسن کے کئی کرشمے سوشل میڈیا پر پڑے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک نہایت منظم سیاسی جماعت کو ملک بھر سے آٹھ لاکھ سے زائد ووٹ ملے لیکن ملک بھر سے انہیں قومی اسمبلی کی ایک بھی سیٹ نہ ملی۔ ضمنی انتخابات میں ایک نیا منظر سامنے ہو گا حکمران جماعت جو سیٹیں چھوڑے گی ضروری نہیں وہ تمام انہیں ایک بار پھر مل جائیں مزید فائدہ ہو نہیں سکتا لیکن نقصان کا احتمال ضرور ہے۔ آج کے شکست خوردہ جو سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں ٹھیک چند روز بعد طبیعت میں قرار آجانے کے بعد دوبارہ سیاست شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، ذرائع بتاتے ہیں حکومت میں آنے والی جماعت کے جو سینئر سیاستدان ہارے ہیں ان میں زیادہ تو ممبران قومی اسمبلی ہیں لیکن ان کی ایک خطا یہ ہے کہ انہوں نے دل میں کہیں وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش کو جگہ دے رکھی تھی پہلے تو انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہ دیا گیا پھر شکست کی صورت باور کرایا گیا کہ آپ بہت مقبول ہوں گے لیکن وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب کسی اور کیلئے ہیں ادھر نگاہ ڈالنا عظیم سیاسی گناہ ہے۔ آئندہ احتیاط۔ آزاد امیدواروں اور ایک اہم عدالتی فیصلے سے منظر بدل سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.