انتخابی نتائج اور حکومت سازی کا مرحلہ !!

64

انتخابی نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔وفاق میں آزاد امیدواروں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اکثریتی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی نے کامیابی سمیٹی ہے۔ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں، مسلم لیگ (ن) پنجاب میں ، جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آ زاد امیدوار خیبر پختونخواہ میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کامیاب ہوئی ہیں۔ وہاں ہمیشہ کی طرح مخلوط حکومت بنے گی۔ جہاں تک وفاق کا تعلق ہے، مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف وہاں حکومت بنانے کی دعویدار ہیں۔ حکومت سازی کے اس مرحلے میںمیل ملاقاتوں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابی نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کا چرچا تھا۔ یہ جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لئے پرامید بھی تھی۔ اگرچہ (ن) لیگ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آ ئی ہے، لیکن یہ بھی تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہی حال پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا ہے۔ جو جماعت جوڑ توڑ کے بعد مطلوبہ نمبر حاصل کر لے گی ، وہ وفاقی حکومت کی سربراہی کرئے گی۔ اس جوڑ توڑ میں ابھی چند دن لگیں گے۔
گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ اپنے وقت پر اور پرامن طریقے سے انتخابات کا انعقاد ہماری کامیابی ہے۔ اس پر ہمیں اللہ کا شکر کرنا چاہیے۔ متعلقہ ادارے اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ انتخابات میں نتائج نہایت تاخیر سے موصول ہوئے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ 24 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی سو فیصد نتائج کا اعلان نہ ہو سکے۔ اس تاخیر کی وجہ سے الیکشن نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا جو کہ قابل جواز امر ہے۔ 2018 میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔3 دن گزر جانے کے بعد بھی نتائج سامنے نہیں آسکے تھے۔ ملک میںپانچ ساڑھے پانچ سال کے بعد عام انتخابات ہوتے ہیں، اگرالیکشن کمیشن برسوں کی تیاری اور اربوں روپے کے بجٹ کے بعد بھی یہ کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتا تو اس کے وجود کا کیا جواز ہے؟ایک اور بات قابل توجہ ہے۔انتخابات سے قبل تسلسل سے یہ بات کہی جا رہی تھی کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہو گی۔ کہا جا رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا ہے کس جماعت کو اکثریت دلوانی ہے اور یہ انتخابات محض خانہ پری ہیں۔ جو نتائج سامنے آئے ہیں ، اس میں کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ تحریک انصاف جس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باقاعدہ گالی گلوچ پر مشتمل مہم چلا رکھی تھی۔ اس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی ہے۔اصولی طور پر یہ پروپیگنڈا کرنے والے سیاسی اور صحافتی حلقوں کو ان الز بات پر معافی مانگنی چاہیے۔
تحریک انصاف اور اس کے حامی ہمیشہ کی طرح اب بھی دعویدار ہیں کہ ساری قوم نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ جبکہ حقائق یہ ہیں جن جماعتوں کو عمران خان چور ڈاکو کہتے تھے عوام نے انہیں تحریک انصاف سے دگنے ووٹ دئیے ہیں۔ اس ضمن میں معتبر ادارے فافن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دو تہائی ووٹ عمران خان کے خلاف پڑا ہے۔ بہتر ہے کہ تحریک انصاف اپنا رویہ تبدیل کرئے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے لئے جمہوری طریقے سے سیاست کرئے ۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی غور کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے اندازوں سے کم سیٹیں کیون حاصل کی ہیں۔جیسا کہ اس پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا سے دور ہے۔یا یہ جو کہا جا رہا ہے کہ اس کی جیت کا شور اتنا زیادہ تھا کہ اس کا ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ ڈالنے کے بجائے، جیت کے انتظار میں آ رام سے گھر بیٹھا رہا ۔
آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا کہ حکومت سازی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ وفاق میں کس جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے۔ کون وزیر اعظم بنتا ہے۔ اہم آئینی عہدے اور وزارتیں کس کو ملتی ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ وفاق میں مخلوط حکومت قائم ہو گی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف سب وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ چند دن میں اس بات کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ حکومت سازی اہم سہی، تاہم اس سے بھی ضروری یہ ہے کہ ملک کو بحرانوں کے دلدل سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی جائے ۔ نہ صرف منصوبہ بندی بلکہ عملی کاوشوں کے ذریعے ملک کو درست سمت میں گامزن کیا جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک مسائل کا ایک انبوہ کثیر ہمارے سامنے ہے۔ عوا م الناس کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ عوام کی اکثریت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ وزیر اعظم کون بنتا ہے اور وزیر اعلیٰ کون۔ نہ ہی عوام کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ کس کو کیا عہدہ ملتا ہے۔ عوام کو روٹی اور روزگار کی فکر ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مہنگائی کا زور ٹوٹ جائے۔ ان کی کمر پر بجلی، گیس، پٹرول ، ادویات وغیرہ کی قیمتوں کی صورت میں جو بوجھ لدا ہوا ہے وہ اس سے نجات چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کو نوکری اور روز گار کے مواقع چاہئیں۔ اس وقت عوام نے اپنی پسندیدہ جماعتوں کو ووٹ دیا ہے۔ ان جماعتوں کا فرض ہے کہ عوام الناس کی محبت کا اور وطن عزیز کا حق ادا کریں۔ ملک کو درپیش بحرانوں کے خاتمے کے لئے مل بیٹھیں۔ نفرتوں کی سیاست کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ سیاست میں گالی گلوچ ، جھوٹ اور الزام تراشی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ نفرت اور گالی کی سیاست نے اس ملک کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ نئی نسل میں تلخی اورکڑواہٹ بھر دی ہے۔ پاکستان کو اقوام عالم میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بہت اچھا ہو اگر سیاسی قائدین اب ملک کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لئے محنت کریں۔
مخلوط حکومت میں عام طور پر سیاسی جماعتیںعہدوں اور وزارتوں کے لئے لین دین کرتی ہیں۔ جن جماعتوں کی بھی حکومت قائم ہوتی ہے ان کا فرض ہے کہ ملکی معاشی صورتحال کے تناظر میں کابینہ کا حجم محدود رکھیں۔ وزارتوں اور عہدوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ اللہ کرئے کہ میرا پیا را ملک پاکستان بحرانوں سے نجات پائے اور اقوام عالم میں سربلندی حاصل کرئے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.