عورت راج!

176

زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب ہمارے یہاں شاعروں، ادیبوں میں تحریر کے ساتھ اپنی تصویر چھپوانے کا رواج نہیں تھا۔ ان میں دو طرح کے لوگ تھے ایک وہ جنھیں اپنی تصویر کے بجائے تحریر سے پہچانے جانے کا شوق تھا اور دوسرے وہ جو خواتین سے ملتے جلتے قلمی ناموں سے لکھتے تھے۔جس طرح آجکل کچھ لوگ کسی اخبار یا رسالے میں اپنی تصویر چھپوانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ امکان ہے کہ اُن د نوں خواتین کے نام سے لکھنے والے یہ مرد حضرات اپنی تصویر نہ چھپوانے کے لئے اتنا زور لگاتے ہو نگے۔ظاہر ہے اپنی دکانداری اور عزت کس کو پیاری نہیں ہوتی خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ شنید ہے اس دور میں زنانہ نام سے لکھنے والے مردانہ ادیبوں کی خوب مانگ تھی۔ ان کی تحریرتو خیرجیسی تیسی بھی تھی لیکن ان کے نام کی برکت کا یہ عالم تھا کہ مداحین دھڑا دھڑ ان کی کتابیں خریدتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے خیر سے پہلے کی طرح زنانہ نام سے لکھنے والے تو نہیں رہے لیکن زنانہ صفات والے شاعر، ادیب اور صحافی آج بھی ہمارے درمیان پوری طرح موجود ہیں۔یہ وہ دیہاڑی دار لوگ ہیں جن کا اپنا کوئی نظریہ یا سوچ نہیں ہے قلم کے ان مزدوروں کو دو وقت کی روٹی اور تھوڑی سی داد پر جہاں سے مزدوری مل جائے یہ کورنش بجا لاتے ہوئے وہیں اپنے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ابھی میں آپ کو یہ بتانا چاہ رہا تھاکہ یہ معاشرہ جس میںہم رہ رہے ہیں یہ بیچارے مردوں کا نہیں سراسر عورتوں کا معاشرہ ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کا راج ہے اور قدم قدم پر عورتوں کو مردوں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ دیگر شعبوں کو تو جانے دیںمحض ادبی حوالے سے ہی بات کی جائے تو اس سلسلے میں شبنم رومانی ،زیبا ناروی، اور روحی کنجاہی جیسے زنانہ مماثلت والے نام کے حامل شعراء کی بہترین مثال پیش کی جاسکتی ہے۔گو یہ حضرات بلا شک وشبہ اپنی اپنی جگہ اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں لیکن زیادہ تر’’تُھڑے‘‘ ہوئے لوگ آج بھی انہیں ان کے کلام سے زیادہ ان کے نام کی وجہ سے جانتے اور پسند کرتے ہیں۔ اس اعلیٰ درجے کی ’’زنانہ پروری ‘‘کے باوجود حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیمیں جب اس معاشرے کو مردوں کا معاشرہ قرار دے کر عورت اور مرد کی برابری کی بات کرتی ہیں تو ہم جیسے بیچارے مردوں کو حیرت کے ساتھ تاسف توہوگا۔آپ کسی ٹی وی ، اخبار یا تشہیری بورڈمیں لپ اسٹک ، لان ،بیوٹی کریم کے اشتہار سے لے کرسگریٹ،شیونگ کریم اور ٹریکٹر ٹرالی تک کے اشتہارات کو دیکھ لیں آپ کو ہر جگہ عورتوں کا راج نظر آئے گا ۔اس سے ہٹ کر آپ تاریخ میں موجود بڑے بڑے جابر اور زور آور راجوں ،مہا راجوں اور شہزادوںکے حالات زندگی پڑھ لیں یہاں بھی آپ کو ان پر راج کرتی یہی’’مہا رانیاں‘‘ اور ’’شہزادیاں‘‘ دکھائی دیں گی۔آج خط کی جگہ سمارٹ فون نے لے لی ہے جس میں نت نئے ایپس اور فوٹو فلٹرز ہیں۔ایسا ہی ایک دلچسپ ایپ ہے جس میں تصویر کا جینڈر یعنی جنس تبدیل کرنے کا آپشن ہے اس کے ذریعے آپ کسی بھی مرد کی تصویر کو خاتون اور خاتون کو مرد کا روپ دے سکتے ہیں۔ اس ایپ کے استعمال سے میں اب تک اپنے کئی بے تکلف دوستوں کو گھنیری پلکوں اور ناگن زلفوں والی ’’ حسینائوں‘‘ میں تبدیل کر چکا ہوں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان ’’پری چہروں‘میں میرے بعض ایسے دوست بھی شامل ہیں جنھیں میںلاڈ سے’’ چبڑ‘‘ یا ’’بجو‘‘ کہتا ہی نہیں سمجھتا بھی ہوں۔اس کے برعکس جب میں نے اس ایپ کے ذریعے شو بز کی چند اچھی خاصی خوبصورت دکھائی دینے والی خواتین کی تصاویر کو مردانہ رروپ دیا تو انہیں اس نئے روپ میں داڑھی مونچھ کے ساتھ دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ اب تک ان پری چہروں کا مفت میں ٹہکا بنا ہوا تھا ۔ پتا نہیں یہ خواتین کا ہنر ہے یا مردوں کا احساس کہ ایک عورت عام سی شکل و صورت کے ساتھ بھی ہم مردوں کو اچھی خاصی حسین ہی نہیں بلکہ ’’قیامت‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ ان عورتوں کے لئے مردوں کی اتنی بڑی حمایت یا حماقت کے باوجود اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ عورتوں کا نہیں بلکہ مردوں کا معاشرہ ہے ۔مثلاََآپ اسی ایک واقعہ کو دیکھ لیں کچھ روز پہلے میرے دوست جذباتی نے موبائل ایپ کے ذریعے اپنی تصویر کا جینڈر تبدیل کرکے ایک نام نہاد لڑکی حسینہ کے نام سے اپنی زنانہ تصویرکے ساتھ نیا فیس بک اکائونٹ بنایا۔ کچھ دن کے بعد میںنے جذباتی سے ’’مطلقہ‘‘ فیس بک اکائونٹ پر لوگوں کے ردعمل کی بابت دریافت کیا تو وہ بڑے مزے سے کہنے لگا’’ زبردست!پہلے میں بڑے لوگوں کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتا تھا اور وہ قبول نہیں کرتے تھے اب بڑے لوگ مجھے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتے ہیں اور میں قبول نہیں کرتی‘‘۔اس کے بعداس نے کسی حسینہ ہی کے انداز میں ایک ادا سے جھٹکا دے کر بالوں کی لٹ کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے مزید کہا’’ اب تک اس نئے فیس بک اکائونٹ پر مجھے ان گنت لوگوں کی فرینڈ ریکوئسٹ آچکی ہیں ۔ کہاں وہ وقت تھا جب کوئی مجھے منہ لگانے کو تیار نہیں تھا اور کہاں اب یہ عالم ہے کہ ملک کے بڑے بڑے اور اہم لوگ مجھے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے کے ساتھ انباکس میں مجھ سے راہ رسم بڑھانے کیلئے اپنے فون نمبر شئیر کرنے کے ساتھ میسج پر میسج کر تے ہیں۔لیکن میں اس معاملے میں انتہائی محتاط ہوں اور پہلے اچھی طرح سے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے والے کا پرو فائل چیک کرنے کے بعد صرف کام کے لوگوں کو ہی فرینڈ لسٹ میں شامل کرتی ہوں۔ میری ایک فضول سی پوسٹ پر بھی لوگ جس انداز میںمیری خوبصورتی اور ذہانت کی بے پناہ تعریف کرتے ہیں مجھے تو جینے کا سواد ہی اب آرہا ہے۔ میں تو بڑی سنجیدگی سے یہ سوچ رہا ہوںبلکہ سوچ رہی ہوں کہ فیس بک پر اپنا پہلے والا اکائونٹ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر کے اپنی باقی ماندہ زندگی اب اسی زنانہ اکائونٹ کے سہارے گزار دوں۔ اور ہاں مزے کی یہ بات بھی سن لو انباکس میں مجھے ماڈلنگ ،ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی متعدد اور زبردست آفرز کے ساتھ ایک بڑے نیوز چینل کے مقبول نیوز اینکر کی طرف سے کو اینکر کی پیشکش بھی ہوچکی ہے لیکن میں نے کسی کو بھی ہاں نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کروں گی تمہیں تو پتا ہی ہے میں ایک مشرقی اور گھریلو قسم کی شرمیلی سی لڑکی ہوں‘‘۔

تبصرے بند ہیں.