سسٹم کے بیٹھ جانے کے بعد آنے والے رزلٹ نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کی کریڈبلٹی پر بہت سے سوالات اٹھا دئے ہیں۔ ہمارے ہاں کبھی بھی ووٹرز کی رائے پر اعتبار نہیں کیا گیا۔ آج نرم انقلاب آئے یا گرم لیکن یہ ضرور ہے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد سے ہی طاقتور سول اور فوجی بیوروکریسی نے اقتدار کے خواب دیکھنے شروع کر دئے تھے۔ یہ سب افراد بہت تربیت یافتہ تھے اور آئی سی ایس پر مشتمل یہ طبقہ تھا جس نے برٹش راج کا نظم و نسق نہایت مستعدی سے چلایا تھا۔ برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا لہٰذا برٹش انڈین آرمی کی تربیت ملک کا دفاع کرنے کے لئے نہیں بلکہ نوآبادیوں پر برطانوی قبضہ مستحکم کرنے اور اس کے مفادات کی خاطر لڑنے کے لئے کی گئی تھی۔ ان افسران کے نزدیک عوام اس لئے تھے کہ ان پر حکومت کی جائے اور اگر تابعدار ثابت نہ ہوں تو ان پر چڑھائی کر دی جائے۔ اور یہ کہ حقیقی جمہوریت ان کے خیال میں ہمارے لئے موزوں نہیں ہے بلکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لئے ٹھیک ہے۔ برِ صغیر نے آزادی حاصل کی تھی عوام بیچاری غلامی کی ٹھوکریں کھا کر اس قابل کہاں تھی کہ وہ انتخابات لڑ سکے یا کم از کم آزادانہ اپنے نمائندے منتخب کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں سے ہی ان عناصر نے اہل اور قابل سیاست دانوں کو کونے میں لگا کر موقع پرست اور اقتدار کے خواہشمند جاگیرداروں، وڈیروں اور چودھریوں کی سرپرستی شروع کر دی تھی تا کہ جب بھی ضرورت پڑے جمہوریت کو ایک طرف کر کے ان کٹھ پتلیوں کو سامنے لے آیا جائے اور پسِ پردہ رہ کر حکومت کی جائے۔
جب کہ یہ اشرافیائی سیاست دان اس قدر ذہین ہیں کہ شائد ہی دنیا کے کسی ملک میں اتنے ماہر سیاست دان ہوں۔ کس وقت کیا پینترا بدلنا ہے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ سیاسی قلابازی ہو یا کچھ اور، سیاست کی ایک ایک چال اپنے مفاد میں استعمال کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال۔ چٹکی بجاتے ہی اپنے ضمیر کے خلاف سودے بازی کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے اور اپنے ضمیر کے خلاف سودے بازی کرنا ان کے نزدیک سیاسی ڈیل سے زیادہ کچھ نہیں۔
آج یہ صورتحال ہے کہ اس ملک میں امراء شاہی نظامِ حکومت رائج ہے اس طرزِ حکومت میں چند افراد یا خاندان یا مراعات یافتہ طبقے کی حکومت ہوتی ہے تمام مراعات اور سہولیات ان کے لئے ہوتی ہیں اور تمام فرائض سے وہ مثتثنیٰ ہوتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں اقتدار حاصل کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں کھا پی کر باہر بھاگ جاتے ہیں اور پھر سے ملک میں واپس آ کر دیگر قوتوں کی مدد سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ یہاں چونکہ امراء شاہی کی چلتی ہے اس لئے جو وہ چاہتے ہیں کر لیتے ہیں۔
جس طرح چند سیٹیں چھیننے کے بعد جس طرح کی تقریر کی گئی اور جس طرح عوام کو سبز باغ دکھائے گئے، انہیں ہتھیلی میں جنت دکھانے کی کوشش کی گئی، ان سے بے شمار وعدے کئے گئے، بلند و بانگ دعوے کئے گئے کیا جو کچھ انتخابات کے بعد اور انتخابات سے قبل گزشتہ دو ماہ میں کیا گیا اس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ غلط طریقے سے کان پکڑ کر اب رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سچ کو ایک الگ رنگ دیتے ہوئے بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سب کوششیں بے تکان ہیں کیونکہ جھوٹ کی بنیاد پر کچھ بھی کر لیں وہ جھوٹ ہی رہے گا، اسے پروان چڑھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن وہ کبھی پائیدارصلاحیت حاصل نہیں کر سکتا۔ سوچیں ضرور ان حالات میں آپ کے پاس بھی کم ہی وقت ہے اور آپ اپنا انجام بہت جلد دیکھ لیں گے۔ کیونکہ سروے اور اوپینین پول لوگوں نے پہلے ہی دیکھ لئے تھے اور اب اسے صرف مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہی کہا جا سکتا ہے۔ شخصیت پرستی اور ایسی باتوں کو عوام میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا حقیقت اور حالات کے سلجھاؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں، دی گئی رائے کو نظر انداز کر کے آپ برسرِ اقتدار آ بھی جائیں تو کیا آپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہیں کرے گا؟ یقیناً نہیں کرے گا کیونکہ وہ تو کب کا سویا ہوا ہے جو صرف اپنے مفادات کے لئے جاگتا اور پھر حاصل کر کے ایک بار پھر سے سو جاتا ہے۔ انہوں نے چاپلوسی کر کے اقتدار تو حاصل کر لیا ہے لیکن کیا یہ پائیدار بھی ہو گا، وہ بخوبی جانتے ہیں چند دنوں میں انہیں بھی دن میں تارے دکھانے شروع کر دئے جائیں گے۔ آپ صرف سیاسی اغراض پر توجہ دے رہے ہیں جو حقائق سے کوسوں دور ہے۔ کیونکہ ووٹ تو کسی اور کو ڈالا گیا نکل وہ آپ کے نام پر آیا، کیا ان کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہیں جنہوں نے آپ کو منتخب ہی نہیں کیا انہوں نے تو کسی اور کو منتخب کیا تھا لیکن منتخب آپ ہو گئے۔ رات کو جو لوگ جیت چکے تھے ان کے نتائج روک کر سسٹم کے بیٹھ جانے کا بہانہ کر کے صبح ہارے ہوؤں کو جتوا دیا گیا۔ غریب عوام کی رائے کو بدلتے ہوئے آپ کا دل نہیں پسیجا یا آپ نے سمجھا یہ تو غریب رعایا ہے جس کو کیا حق ہے ہمارے بارے میں رائے دینے کا، یہ تو محکوم ہیں، جب کہ ہم فیصلہ ساز ہیں۔ پہلے پوری کوشش کی گئی کہ عوام کو گمراہ کر کے ان کے من پسند لیڈر پر مختلف الزامات لگا کر اس کے خلاف رائے دہی کے لئے تیار کیا جائے جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو یہ سب کچھ کر دیا۔ سب نے دیکھ لیا عوام کسے چاہتے ہیں، خان کا ووٹ بینک اسی کے ساتھ جڑا ہوا ہے چاہے اس کا نشان تک چھین لیا گیا لوگوں نے نشان ڈھونڈ ڈھونڈ کر ٹھپے لگائے۔ انتخابی نشان کوئی بھی تھا، امیدوار چاہے گمنام ہی تھا، لوگوں نے سارا غصہ ووٹ ڈال کر نکال لیا۔ پکتا ہوا لاوا کہیں تو نکلنا تھا۔
اس ملک کی انتظامیہ، عدالتیں سب ان کا ساتھ دے رہی ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اس وقت فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور ایسی صورتحال کسی قوم کو زیادہ دیر رہنے نہیں دیتی یہ قدرت کا اصول ہے۔ یہاں معاشرتی بے حسی اس حد تک آ گئی ہے کہ ڈر لگتا ہے۔ اس لئے اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ اپنا قبلہ درست کر لیں اس لئے کہ انہوں نے ذمہ داری لی ہے کہ وہ اس ملک کا انتظام درست کریں گے۔ اب مزید وقت نہیں مزید خرابی اس نظام سمیت ملک کو لے ڈوبے گی اور اگر یہ سب نہ رہا تو کیسا افسر، کیسا حکمران، کہاں کے ٹھاٹھ باٹھ اور سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ میری ذاتی رائے میں یہ ہم سب کے لئے آخری موقع ہے اس طرح کی زیادتی اور جبر زیادہ دیر نہیں چل سکتا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قائدین ہوں یا طاقتور طبقے سمجھنے کی کوشش کریں جمہوریت کا استحکام اور اس کا فروغ ہی ملک کے عوام کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ اب بھی وقت ہے آتش فشاں کے پھٹنے کو روکا جائے۔
تبصرے بند ہیں.