نابینا قوم کیلئے نابینا قانون

54

تابڑ توڑ عدالتی فیصلوں نے رنگ محفل میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ رنگ ہینگ اور پھٹکری کے استعمال کے بغیر ہی آ گیا ہے سائفر میں دس برس قید، توشہ خانہ میں چودہ برس قید ڈیڑھ ارب جرمانہ جبکہ زمانہ عدت میں نکاح کے جرم پر خان اور خانم کو سات سات برس کی سزائے قید سنا دی گئی ہے۔ ایک تشریح کے مطابق زمانہ عدت میں کیا گیا نکاح تھا ہی نہیں لہٰذا دوبارہ نکاح کیا گیا اور اس نکاح سے قبل جو کچھ ہوتا رہا وہ زنا کے زمرے میں آتا ہے، ایک سیاسی مکتبہ فکر کو اس عدالتی فیصلے سے تشفی نہیں ہوئی انکا خیال تھا کہ فیصلے میں دونوں میاں بیوی کو سنگسار کرنے کا حکم بھی آنا چاہیے تھا۔ یہ کسی کی ذاتی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن ملکی قوانین کے مطابق یہ ممکن نہیں، ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اسلامی نظام تو ہے نہیں لہٰذا اس قسم کا فیصلہ نہیں آ سکتا۔ ملک میں ایک ادارہ موجود ہے جہاں اسلام سے متصادم قوانین کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ متعدد قوانین چیلنج ہوئے لیکن اختتام ویسا ہی ہوا جو چیلنج کشتیوں کا ہوا کرتا ہے۔ ہم مکمل طور پر اسلامی ملک ہیں نہ جمہوری بلکہ دونوں کے درمیان کی کوئی چیز بنا دیئے گئے ہیں پس اب وہی کچھ ہر شعبہ زندگی میں نظر آتا ہے جو ’’درمیانے‘‘ کیا کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں اگر قوانین مکمل تبدیل بھی ہو جائیں تو شاید پھر بھی کسی کو سنگسار کرنے کا حکم نہ آ سکے۔ مجرم نے اگر سوال سامنے رکھ دیا کہ مجھے سنگسار کرنے کیلئے وہ آئیں جنہوں نے خود یہ جرم نہ کیا ہو، اس صورت میں گمان یہی ہے کہ ہر شخص نہیں تو بیشتر ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پتھر زمین پر رکھ دیں گے اور سر جھکائے میدان سے رخصت ہو جائینگے، اپنی تاریخ پڑھیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ اسلامی قوانین سے مدد صرف ایسے معاملات میں لی گئی جہاں دیت دے کر قتل کے ملزمان کو رہائی دینا مقصود تھا، قوم کو جو مقدمات ابھی نہ بھولے ہونگے ان میں شامل ہیں ریمنڈ ڈیوس نامی تخریب کار کی رہائی، بلوچستان کے ایک ممبر اسمبلی کی رہائی جنہوں نے اپنی گاڑی تلے اے ایس آئی ٹریفک پولیس کو روند ڈالا، ایک سابق خاتون محتسب کے بیٹوں کا واقعہ جنہوں نے ترنگ میں آ کر اپنی تیز رفتار کار سے نوکری کی تلاش میں اسلام آباد آئے راہگیروں کو کچل ڈالا جبکہ کراچی کے ایک مشہور مقدمہ قتل میں بہن کو چھیڑنے سے منع کرنے پر بھائی کو قتل کرنے والے ایک امیر زادے کی جان بخشی کی اعلیٰ ترین سطح پر کامیاب کوشش کی گئی۔ اسی طرح لاہور میں کیولری گراؤنڈ میں راستہ نہ دینے پر ایک نوجوان کو قتل کرنے والے کو رہا کرنا مقصود تھا وہاں بھی دیت کے قانون کا سہارا لیا گیا۔

الیکشن میراتھن کا آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے، صوبہ خیبر میں ایک نوجوان کو انتخابات سے دستبردار کرانے کیلئے کوشش ناکام ہونے پر قتل کر دیا گیا ہے پولیس نے علم ہونے کے باوجود ایف آئی آر میں قاتلوں کو نامعلوم لکھا ہے اس قتل اور اس سے ملتے جلتے قتل کے واقعات میں دیت کا قانون کسی کو یاد نہ آئے گا۔ ابھی کچھ اور بے گناہ طاقتوروں کی قیمتی گاڑیوں کے موٹے ٹائروں کی زد میں آ کر مارے جائیں گے وہاں بھی آپ صلح ہوتی دیکھیں گے یہ صلح اللہ کی خوشنودی کیلئے کی جائے گی اس صلح سے خدا یقینا خوش نہیں ہو گا۔ مارے جانے والوں کو اس قسم کی صلح پر مجبور کرنے والوں کا انجام شاید ہم نہ دیکھ سکیں لیکن یہ لوگ کسی نہ کسی انداز میں اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے، یہ خدا کا نظام ہے خریدے گئے اور بیچے گئے ووٹوں سے تشکیل پانے والی کسی قانون ساز اسمبلی کا نظام نہیں۔ 9 مئی کے کیس میں ہونے والی تحقیق اور تفتیش کے مطابق تمام پروگرام لال حویلی میں بنایا گیا تھا جہاں سپیروں کی طرف سے کئی برس دودھ پلانے کے باوجود دودھ پی پی کر موٹا ہونے اور پھنکارنے والی ایک اہم شخصیت بھی پیش پیش تھی۔ اس مقدمے میں بزرگِ راولپنڈی شیخ چلہ صاحب بھی دھر لیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس مقدمے میں 367 افراد کے نام ہیں زیادہ تر گرفتار ہیں چند ایک مفرور ہیں، مقد مے کی سماعت 6 فروری سے شروع ہو رہی ہے، ملزمان اور مفروران کی طرف سے سزا سے بچنے کیلئے حتمی کوششوں کا آغاز اسی انداز میں ہو چکا ہے جس قسم کی کامیاب کوشش عالی مرتبت خدیجہ شاہ کر چکی ہیں، موصوفہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے دوبارہ ان ہونے کی ایک کوشش کی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے فیشن ڈیزائیننگ بزنس کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ انہوں نے یہ کہانی اپنے وسیع و عریض کاروبار کو بچانے کیلئے پیش کی ہے بذات خود ابھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ ایک ذریعے کے مطابق وہ امریکہ میں ہیں اور انتخابات کے بعد نتائج دیکھ کر اور آئندہ حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد ملک میں واپس آئیں گی وہ ایک مرتبہ رہائی کے بعد اب عجلت میں کوئی قدم نہ اٹھائیں گی کہ دنیا کو اقبال بانو کی مشہور زمانہ گائی ہوئی غزل کے مصرعے یاد آ جائیں۔
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گمان
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے گئے

پاکستان کی تاریخ زن اور زر کے جھگڑوں کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے۔ ان دونوں چیزوں کا استعمال انتخابات کے زمانے میں خوب ہوتا ہے لاہور کے ایک اہم حلقے اور اہم امیدوار قومی اسمبلی کے دفتر کی ویڈیو وائرل ہے جس میں برقعہ پوش خواتین صف بستہ نظر آ رہی ہیں۔ سامنے میز پر نوٹوں کے بنڈل سجائے عملہ بیٹھا ہے خواتین باری باری آ کر ووٹ کی قیمت وصول کرتی نظر آتی ہیں، یہ معاملہ صرف لاہور کے صرف ایک حلقے کا نہیں ملک بھر میں درجنوں ایسے حلقوں میں یہ ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہو گی لیکن ہماری قسمت صرف ہمارے ملک میں قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہے اسے کچھ نظر نہیں آتا جبکہ دنیا بھر میں قانون کے بارے میں کہتے ہیں قانون کی چار آنکھیں ہوتی ہیں دو آنکھیں سر کے آگے اور دو آنکھیں سرکے پیچھے، یوں قانون چہار جانب بخوبی دیکھ سکتا ہے، وہاں کسی بے گناہ کو مقدمہ قتل میں سزا نہیں ہوتی وہاں سرگودھا سوتا ہے نہ سرگودھا کی رانی جسے مقدمہ قتل میں اس وقت ملوث کیا جاتا ہے جب اسکی عمر صرف 19 برس تھی۔ مزید انیس برس جیل میں گزارنے کے بعد ہمارے قانون کو علم ہوتا ہے کہ رانی بے گناہ تھی، رانی کی معصومیت اسکی جوانی قانون کے نابینا ہونے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ملک بھر سے کوئی آواز اسکے حق میں نہ اٹھی، آج چند اخلاق باختہ گریبان چاک کر کے سڑکوں پر آ جائیں دنیا کے کونے کونے سے آپکے لیے بین شروع ہو جائینگے، نا بینا قوم کیلئے نابینا قانون ہوتا ہے۔ انتخابات کے نتائج سے اندازہ ہو جائیگا مہریں لگانے والے دیدہ بینا رکھتے تھے یا نابینا تھے۔

تبصرے بند ہیں.