ووٹ کس کو دیں۔۔۔۔۔۔؟

73

انتخابات سر پر آچکے ہیں، الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اور ان کے ووٹر سپورٹر زیادہ سے زیادہ ووٹ پکے کرنے کے لئے تاحال محنت، کوشش اور جدوجہد کر رہے ہیں۔ شہر ہیں، گاؤں یا پھر دیہات۔ ہر طرف آج کل الیکشن اور ووٹوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ چھوٹے ہیں یا بڑے سب اس وقت انتخابی بخار میں مبتلا ہیں اور اس وقت ایساکوئی گھر اور در ایسا نہیں جہاں الیکشن اورسیاست کاذکرنہ ہو۔ متعلقہ حلقے یاحلقوں میں کس کی پوزیشن مضبوط ہے اور انتخابات میں مجموعی طور پر کونسی پارٹی کلین سویپ کرے گی اس طرح کے بحث اور مباحثے عام سے عام تر ہیں۔ جن لوگوں کاسیاست سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں رہا ایسے لوگوں کوبھی اب سیاست سیاست کہنے کے بغیرکھاناہضم نہیں ہو رہا۔ یہ انتخابات پہلے بھی ہوتے تھے اورلوگ یہ سیاست پہلے بھی کرتے تھے لیکن ایسے حالات اور ایسا ماحول واللہ پہلے کبھی نہ تھا۔ پہلے بھی تو یہی سیاست تھی۔ یہی ووٹ توپہلے بھی مانگے جاتے تھے اور مقابلے بھی اس وقت بڑے سخت اورٹف ہواکرتے تھے لیکن ماحول کبھی سخت اور اس طرح ٹف کبھی نہیں رہا۔ اب تو امیدوار ہیں یا ووٹر سب ایک دوسرے کو کاٹنے اور زندہ چپانے کے لئے دوڑ رہے ہیں۔ آج سیاستدان ایک ووٹ کے لئے لوگوں کو تقسیم کرنے کے ساتھ نہ جانے کیا کچھ نہیں کر رہے۔ ہمیں یادہے پہلے جب انتخابات کایہ والاوقت اور موسم آتا تو الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار شہروں کے ساتھ نمبر نمبر پر گاؤں اور دیہات کا چکر لگا کر سب سے پہلے اپنا تعارف کراتے، پھر اگر کوئی کارکردگی ہوتی وہ لوگوں کے سامنے رکھتے، اس کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد بیان کر کے اپنا منشور پیش کرتے اور آخرمیں اپنے لئے ووٹ کی عاجزانہ سی درخواست کرتے۔ اس زمانے میں جو امیدوار زیادہ چالاک اور سیاسی بازیگر ہوا کرتے تھے وہ مقصد اور منشور بیان کرنے کے بعد اپنی پگڑی قوم کے سامنے یاگاؤں و علاقے کے بڑوں کی جھولی میں رکھ کریہ کہتے کہ ہم نے اپنی عزت آپ کی جھولی میں رکھ دی ہے اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ ووٹ اورحمایت کے معاملے میں کیافیصلہ کرتے ہیں۔یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب سیاستدان اور ووٹر جاہل وان پڑھ ہوا کرتے تھے لیکن اب۔۔؟ اب نہ سیاستدان جاہل ہیں اورنہ ووٹران پڑھ۔ اس لئے اب اپنی پگڑیاں لوگوں کی جھولیوں میں رکھ کرووٹ نہیں مانگے جاتے بلکہ دوسروں کی پگڑیاں بھرے مجمعوں، جلسوں اور جلوسوں میں اچھال کر لوگوں کو اپنے یا اپنوں کے لئے ووٹ اور سپورٹ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اب انتخابی جلسوں، جلوسوں اورکارمیٹنگز میں ہم نے کیا کیا۔؟ کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے اور نہ کوئی جواب بلکہ ہر جلسہ، میٹنگز اور پروگرام ہمارے مخالف نے کیا کیا یا اس نے کیا کھایا اور کیا پہنا سے شروع ہوکر مخالف امیدوارکی ذات پات اور عزت کاجنازہ نکالنے پر ختم ہوتا ہے۔ امیدواروں کے ساتھ ان کے ووٹروں اور سپورٹروں کے رویے اور لہجے بھی اب بدل گئے ہیں۔ شہروں کا تو نہیں پتہ لیکن گاؤں اوردیہات میں پہلے علاقے کی سطح پرایک یاچندایک بڑے ہواکرتے تھے جو علاقائی مسائل، لڑائی جھگڑوں اور رسم و رواج کے حوالے سے فیصلوں کے ساتھ اس طرح کے انتخابات کے موقع پر بھی اہل علاقہ کی مشاورت اور رضامندی سے کسی امیدوارکی حمایت یامخالفت کاکوئی متفقہ اعلان کرتے لیکن اب نہ صرف سنا بلکہ ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا بھی ہے کہ انہی گاؤں، دیہات اورعلاقوں میں ایک دو نہیں کئی بڑوں نے ایک ساتھ جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ اب نہ صرف ہرگاؤں، دیہات اور علاقے میں بلکہ ہرگھر اور در پر ایک بڑا بن کرشملہ لہرا رہا ہے۔ پہلے شہروں کے ساتھ گاؤں اور دیہات کی سطح پر بھی اس طرح کے مواقع پر نہ صرف مجموعی قومی مفادات کی بات ہوتی بلکہ تمام ترفیصلے مجموعی مفادات کو سامنے رکھ کرکئے جاتے تھے لیکن اب ہر گھر میں ایک بڑا پیدا ہونے سے بات مجموعی مفادات سے ذاتی مفادات پر آ گئی ہے۔ اب یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ شہر، گاؤں اور علاقے کے لئے کونسا امیدوار اچھا، فائدہ مند اور موزوں رہے گا بلکہ یہ دیکھا اور تولا جا رہا ہے کہ میرے لئے کونسا امیدوار منافع بخش اور سودمند رہے گا۔ این اے 13بٹگرام جو میرا آبائی ضلع ہے اس میں قومی اسمبلی کی واحد نشست پر اس بار ایک دو نہیں کوئی درجن کے قریب امیدوار سامنے آچکے ہیں۔ ووٹ اور سپورٹ کے معاملے میں اب ہر شخص خود مختار ہے لیکن پھر بھی خودمختاری کے اس دور میں کچھ لوگ ہمیں فون کال یامیسج کرکے رائے طلب کرتے ہیں کہ انتخابات میں کس کی سپورٹ کرکے اسے ووٹ دیا جائے۔ شہروں کی سیاست اور شہروں کے معاملات تو الگ ہوتے ہیں یہاں پارٹی اور ہائی لیول پر مقابلے اور سیاست ہوتی ہے جس میں گلی محلوں کے یہ چھوٹے موٹے کام نہیں دیکھے جاتے لیکن گائوں اور دیہات کا معاملہ شہروں سے مختلف ہے۔ گائوں اور دیہات کے لوگ پانی کے کالے پائپ، چندکھمبوں، بی ایچ یو اور پرائمری سکولز کی تعمیر پر راضی ہو جاتے ہیں لیکن شہری لوگ میگا پراجیکٹس سے کم پر بات نہیں کرتے۔ ویسے انتخابات کے موقع پرسبزباغ سب دکھاتے ہیں اور میگا پراجیکٹس کے لالی پاپ بھی سب دیتے ہیں لیکن بہت ہی کم امیدواروں کو دیکھا گیا ہے کہ جن کو انتخابات کے بعد اپنے یہ اعلانات یاد رہتے ہوں اکثر تو اقتدارکی رنگینیوں میں گم ہو کرنہ صرف اپنے یہ اعلانات بلکہ حلقے کے عوام کوبھی پھر بھول جاتے ہیں۔ الیکشن کے یہ کچھ دن امیدوار عوام کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پھر پانچ سال تک عوام ان امیدواروں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ووٹ ایک قومی امانت ہے اوراس میں خیانت ہرگز جائز نہیں۔ امیدواروں سے آج کا ووٹر اور سپورٹر زیادہ باشعور اور چالاک ہے۔ ہر شخص اپنے امیدواروں کو سر سے پائوں تک خوب جانتا ہے۔ کون سا امیدوار حلقے، علاقے، ملک وقوم کے لئے فائدہ مندہے اور کونسا امیدوار حلقے و علاقے کے لئے نقصان دہ۔ یہ حلقے کے ووٹروں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے تمام ووٹر انتخاب اور ووٹ کے لئے ایسے امیدوار کا انتخاب و چنائو کریں جو کل کو حلقے، علاقے، ملک و قوم کے لئے سودمند ثابت ہو۔ ووٹر اپنے ووٹ اورسپورٹ کے حوالے سے ملکی و قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔ ایسے اہم مواقع پر ہم قومی مفادکے بجائے ذاتی مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جو بعد میں پوری قوم اورملک کے لئے نقصان کاباعث بنتے ہیں۔ اس لئے عوام سے درمندانہ گزارش ہے کہ وہ 8 فروری کے انتخابات میں ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کو سامنے رکھ کرقدم اٹھائیں تاکہ آپ کے اس فیصلے اور قدم سے کل پوری قوم اور ملک کا نقصان نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں.