مسئلہ کشمیر کا اصل مجرم کون؟

20

5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تاریخ کی دبیز تہہ میں چھپے رازوں کو ایک دفعہ پھر معزز قارئین کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ جب تک مسئلہ کشمیر سے متاثرہ اکائیاں ان زمینی حقائق کا ادراک نہیں کر پائیں گی کہ مسئلہ کشمیرحکومت برطانیہ و شاہی خاندان کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت تک کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیرکبھی حل نہیں ہو گا ۔کشمیر کے معصوم بچے ، عزت مآب مسلم مائیں، بہنیں ، بیٹیاں اور باریش بزرگ بھارتی فورسز کے ظلم وستم اور جبر و استبداد کے سائے میں گذشتہ 76 سالوں سے جس طرح زندگی گزار رہے ہیں یہ ان ہی کا حوصلہ ہے ۔جہاں ایک جانب بھارتی فوج کی وحشیانہ درندگی تو دوسری جانب لارڈ ماؤنٹ بیٹن اورر یڈکلف کی ملی بھگت کے نتیجے میں سوا لاکھ نہتے اور بے گناہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ 8 جولائی 1947 کو برطانوی بادشاہ جارج ششم کا وکیل سیرل Cyril Radcliffe ریڈکلف بائونڈری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے آیا ۔ حیران کن طور پر اپنے سابقہ کالج فیلو اور جارج ششم کے کزن وائسرے ہند لوئس المعروف لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سیاسی و تاریخی جغرافیائی تقسیم کی بدترین بددیانتی کے مرتکب ہوئے ۔ اس انتہائی نازک موڑ پر مسلمانوں کے مئوقف کو سنے بغیر جارج ششم نے فوری طور پر دستخط کر کے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ریڈکلف کے سیکرٹری Christopher Beaunmont کے بیٹے Barney White-Spunner اپنی کتاب Partition: The Story of Indian Independence and the Creation of Pakistan in 1947 میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی بددیانتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ریڈ کلف نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے دبائو پر پنجاب کی سرحدیں آخری لمحات میں تبدیل کر کے تحصیل، گرداسپور، بٹالہ اور پٹھان کوٹ بھارت کو دے دی۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اپنے پرائیوٹ سیکرٹری Lionel Ismay کے ذریعے سرحدوں میں ردوبدل کے لیے اپنے آقائوں سے پہلے ہی منظوری لے چکا تھا۔ معروف مصنف Alastair Lamb نے اپنی تصنیف Incomplete partition میں بھارتی قیادت اور مائونٹ بیٹن کی چالاکی اور کذب بیانی کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہوئے ناقابل تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ کہ 26اکتوبر کو وی۔ پی مینن جموں گیا ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز الحاق کی دستاویز پر دستخط کی پوری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے۔ بددیانتی پر مبنی مندرجہ بالا تمام واقعات حکومت برطانیہ و شاہی خاندان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ حصہ بن چکی ہے۔ جس کا خمیازہ 5 لاکھ نہتے مسلمانوں کی قربانیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑا، جن کو محض گیارہ ہفتوں کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ بے گناہ مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ اب بھی انتہائی بہیمانہ طریقے سے جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیریوں کوموت کی بھینٹ چڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کے اربوں کے Infrastructure کو بھی تباہ و برباد کر دیا گیا۔ تمام تر وحشیانہ تشدد کے باوجود مظلوم کشمیریوں کو آج تک ان کا بنیادی حق آزادی نہیں مل سکا ۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان چار خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں، جبکہ پانچویں ایٹمی جنگ کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی و زمینی حقائق کے تناظر میں یہ تینوں ہی خطے کی تاریخ کے سب سے بڑے مجرم ہونے کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔ حکومت برطانیہ و شاہی خاندان یہ کہہ کر اب راہ فرار حاصل نہیں کر سکتے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور ریڈ کلف کا یہ ذاتی فعل تھا۔ جہاں پر معمولی عوامی احتجاج پر حکومتیں لرز جاتی ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے، وہاں پر 76 سال گزرنے اور شدید عوامی دبائو کے باوجود لارڈ مائونٹ کی ڈائری اور خفیہ دستاویزات کو ابھی تک پبلک نہیں کیا گیا۔

جس طرح لارڈ مائونٹ بیٹن اور ریڈکلف 1947 میں حکومت برطانیہ و شاہی خاندان کے نمائندے تھے۔ بالکل اسی طرح شہزادہ ہیری شاہی خاندان کا فردہونے کے ساتھ ساتھ حکومت برطانیہ کا بھی نمائندہ تھا ۔ اس کے باوجود اس نے افغانستان میں قتل کرنے والے بے گناہ شہریوں کو شطرنج کے مہرے قرار دے کر مسلم دشمنی کی عکاسی کی تھی ۔ مندرجہ بالا تمام المناک واقعات و تاریخی حقائق اسلام فوبیا کی طرف اشارہ کر رہے یا پھر صلیبی جنگوں میں ہونے والی عبرتناک شکستوں کے بدلے کی طرف ۔ جس سے ثابت ہوا کہ تقسیم ہند کے وقت بائونڈری لائن میں ردوبدل کے منصوبے کو پس پردہ حکومت برطانیہ وشاہی خاندان کی مکمل سپورٹ حاصل تھی ۔کوئی اتفاق کرے یا نا کرے لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر و مسئلہ فلسطین ایک ہی سکے کے دو رخ issue ہیں۔ ”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنھیں اللہ نے جہنم سے محفوظ کر دیا ہے ایک گروہ وہ جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہوگا جو عیسی بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہو گا“، صیحح رواہ النسائی و احمد۔ تو کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مسئلہ کشمیر و فلسطین کے پیچھے برطانیہ کا ہاتھ تھا۔

وقت آگیا ہے کہ کشمیر کی سیاسی، دینی اور دیگر قیادتوں کو ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دے کر برطانوی و بین الاقوامی عدالت انصاف میں حکومت برطانیہ و شاہی خاندان کے خلاف پوری قوت کے ساتھ کیس دائر کر دینا چاہیے۔ پھر پورے عزم کے ساتھ اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے اقوام متحدہ، یورپی یونین، سارک، او آئی سی، شنگھائی تعاون تنظیم اور ایکوواس جیسے بین الاقوامی فورمزپر غاصب بھارت اور برطانیہ کے سیاہ چہروں کو بھی بے نقاب کرتی رہیں ۔کیونکہ بھارتی دہشت گردی اور برطانوی حکومت وشاہی خاندان کی بددیانتی کے ڈسے ہوئے بعض کشمیری حلقوں سے ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیںکہ کیوں نہ آزادی کے اس پرامن احتجاج کو برطانیہ کے گلی کوچوں ، قصبوں اور شہروں میں لے جایا جائے۔

تبصرے بند ہیں.