الیکشن 2024: سیاسی اشرافیہ کا انجانا خوف

1,506

زینب وحید

 

کراچی سے خیبر۔ گلگت سے گوادر تک روٹی کو ترسے عوام کے خون سے آنے والی لالی اپنے گالوں پرسجائے سیاسی ایلیٹ کے نمائندوں کی جدید ماڈل کی بڑی گاڑیوں، برانڈڈ لباس، برانڈڈ سینڈل اور برانڈڈ چشموں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ اس سیاسی اشرافیہ کے دکھائے گئے سبز باغوں اور سہانے خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے پٹرول اور ڈیزل چھوڑتی گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے نوجوانوں کا لباس اور چہرہ آلودہ ہے۔ 21 ویں صدی میں بھی پاکستانی نوجوان کے پاس اس سیاسی اشرافیہ کے جھوٹے دعووں پر یقین کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اور اگر کوئی آپشن تھا تو وہ سیاسی حماقتوں، غلط فیصلوں اور نادان مشیروں کے ہاتھوں چند ماہ پہلے دھندلا گیا ہے۔ آج نوجوان کے کانوں میں ہر طرف سے دعووں، وعدوں، خوابوں کی گونج ہے۔
حیرت ہے کہ جلسے جلوسوں میں اس بات پر بھی جھگڑے نظر آتے ہیں کہ "اصل میں یوتھ کس کے ساتھ ہے؟ کھرب پتی سیاست دانوں نے نوجوانوں کی تعریف کو بھی ممی ڈیڈی، پیزا برگر اور "بے روزگار یوتھ” میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان جلسوں میں بھی اپنی کلاس کے نوجوان کو اسٹیج پر اپنے قریب بلا لیتے ہیں، لیکن عام نوجوان ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھا ٹوٹے اور بکھرے خوابوں کے تانے بانے بُنتا رہتا ہے۔ ایک طرف ٹی وی چینلز پر کروڑوں روپے کا پیڈ کانٹینٹ چلوا رہے ہیں تو دوسری طرف لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں۔ برسات کے پتنگے تو ہر سال ایک بار جلوہ گر ہوتے ہیں، لیکن سیاسی پتنگے پانچ سال بعد اپنے دیدار کا شرف بخشتے ہیں۔

مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف، چیف آرگنائزر مریم نواز، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور اے این پی سمیت تمام سیاسی رہنما دعوے تو کر رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر نوجوانوں کو بااختیار بنائیں گے، روزگار دیں گے اور فیصلہ سازی میں شامل کریں گے۔ آیئے حقیقت کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اصل صورتحال کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف 2018 میں نوجونواں کی طاقت کا نہایت طاقتور نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی ۔ نوجوانوں نے جناب عمران خان پر اعتماد بھی کیا اور مکمل سپورٹ بھی۔ اُن کے ہر ایونٹ کو نوجوان اپنی طاقت سے سجاتے رہے ۔ لیکن باریک بینی سےجائزہ لیاجائے تو سابق وزیراعظم کے چند قریبی افراد کے سوا کسی نوجوان کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا گیا۔ 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے ملک بھر میں مختلف نشستوں پر نئے چہروں کو موقع دیا تھا۔ اگرچہ ان میں سے اکثریت کو شکست ہوئی، لیکن بعض حلقوں میں امیدوار کامیاب ہوکر ایوانوں میں بھی پہنچے، لیکن پی ٹی آئی نے 2018 میں اقتدار میں آنے کے لیے الیکٹیبلز کا انتخاب کیا۔ کافی امید تھی کہ 2023 کے الیکشن میں مزید نوجوانوں کو موقع ملے گا، لیکن 9 مئی کے واقعات نے اُن امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

“پاکستان کو نواز دو ‘‘کے سلوگن سے اپنے منشور کا اعلان کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور چیف آرگنائزر مریم نواز ہر جلسے میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار نوجوان اپنے اور والدین کے خواب پورے کرنا چاہتا ہے،گھاگ سیاسی رہنما اس حقیقت کو بخوبی جانتےہیں ۔ اس لئے جہاں موقع ملتا ہے، وہ اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم جناب شہباز شریف مختلف تعلیمی اداروں میں طلباء سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ من پسند اور منتخب تعلیمی اداروں میں ہی کیوں جاتے ہیں؟ اُن اسٹوڈنٹس سے کیوں نہیں ملتے جن کی سوچ پر کوئی پہرہ نہیں۔ مریم نواز بھی صرف انہی نوجوانوں سے ملاقاتیں کرتی ہیں جو اُن کی پارٹی میں سوشل میڈیا کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں، لیکن عام نوجوانوں سے اُن کا کوئی انٹرایکشن نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کے موجودہ ماحول میں وہ اُن نوجوانوں کے تلخ سوالات کا جواب دینے سے گریز کر رہی ہیں جو غصے میں ہیں۔ لیگی اور جیالے رہنماوں کے سوشل میڈیا پر بیانات اور ویڈیوز کے نیچے کمنٹس میں نوجوانوں کی ناراضی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مین اسٹریم میڈیا پر "نئی سوچ” مہم متعارف کرائی ہے۔ وہ ہر تقریر میں نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ بزرگ سیاست دانوں اور پرانی طرز سیاست کو چھوڑ کر نئی سوچ اپنائیں، لیکن اُن کے پیش کردہ 10 نکات میں دو نوجوانوں اور ایک تعلیم سے متعلق ہے۔ یکساں معیاری تعلیم کے منصوبے لانا، یوتھ کارڈ کے ذریعے نوجوانوں کی مدد اور تمام ڈویژنز میں یوتھ سینٹرز کا قیام منشور کے نکات ہیں۔

مجھے حیرت ہے کہ بلاول بھٹو جیسے جدید سوچ کے نوجوان نے بھی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی دینے کے بجائے نوجوانوں کو کیش رقم دینے کی سوچ اپنائی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی کے سینئر رہنماوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ روزگار کے کم مواقع اور بے روزگاری کے باعث یہ نعرہ نوجوانوں کے لئے نہایت پرکشش ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ پالیسی عارضی طور پر تو نوجوانوں کو خوش کر سکتی ہے، لیکن یہ ترقی کا کوئی طویل المدتی قابل تعریف منصوبہ نہیں۔ پیپلز پارٹی کو ایسے خوشنما نعروں کے بجائے دیرپا جامع ٹھوس منصوبہ پیش کرنا چاہیئے تھا۔ ایسے منصوبوں کے نتائج آنے میں تاخیر تو ہو سکتی تھی، لیکن وہ دیر پا اور قومی ترقی میں بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ بلاول بھٹو پی ڈی ایم حکومت میں خود وزیر خارجہ رہے، پی پی رہنما شیری رحمان وزیر ماحولیات رہیں، لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کے لئے ایسی کوئی پالیسی لانچ نہیں کی گئی کہ انہیں لیڈرشپ سکھائی جائے اور جدید دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا جائے، اسی طرح کلائمٹ چینج جیسے مسائل کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔

میں نوجوانوں اور تعلیم کے لئے متاثرکُن منشور پیش کرنے پر اے این پی کو شاباش دوں گی۔ اے این پی کے نکات میں تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں ٹیوشن فری تعلیم، بچوں کے لئے معیاری اور مساوی ایجوکیشن، ایڈوانس لرننگ کے لئے جامع اصلاحات، جی ڈی پی کا 4 فیصد شعبہ تعلیم کیلئے مختص کرنا اور پرووینشل ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام شامل ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان نے نوجوانوں کو مدنظررکھتے ہوئے منشور میں 10 سال کے لئے تعلیمی ایمرجنسی کےنفاذ کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ متحدہ مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ اس جماعت نے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو موقع دیا، لیکن یہ کراچی تک محدود ہے۔ فی الحال اس جماعت میں نوجوان قیادت اور فیصلوں میں نوجوانوں کا کردار نظر نہیں آتا بلکہ تمام بزرگ سیاست دان ہیں۔

جماعت اسلامی نوجوانوں کو مواقع دے رہی ہے، لیکن ان کا جوش خطابت اور قائدانہ صلاحیتیں اس وقت تک قومی ترقی میں کردار ادا نہیں کر سکتیں جب تک ووٹ کی طاقت سے وہ فیصلہ ساز ایوانوں تک نہ پہنچ جائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بڑی فالوننگ رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں مل پاتا۔

اس وقت بلاول بھٹو، شیزا فاطمہ، عائشہ گلہ لئی اور چند دیگر نوجوانوں کے سوا اکثریت وہی سیاست دان دوبارہ میدان میں ہیں، جوماضی میں حکمران رہے ہیں۔ لیکن جدید دنیا کے تقاضے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ بزرگ سیاست دان جدید دنیا کے چیلنجز سے آگاہ ہیں؟ اور کیا انہیں جدید اور آنے والے پچاس سال کے دوران پیش آنے والے ممکنہ مسائل کا ادارک ہے؟ کیا اُن کے پاس ایسے مسائل کا کوئی حل ہے؟ انہوں نے طلباء، ایکٹوسٹس، ماہرین سے کوئی برین اسٹورمنگ کرنے کا پلان بنایا ہے؟ آج کی دنیا کو آرٹیفیشل انٹلی جنس، کلائمٹ چینج، عالمی امن اور تنازعات کے جدید تقاضوں کا سامنا ہے۔ تو کیا بزرگ سیاست دان ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں گے یا وہ ماضی کی طرح اپنے حریفوں پر الزامات لگا کر ہی سیاسی طور پر زندہ رہنے کی کوشش کریں گے؟

کیا پاکستان کا نظام اور سیاست دانوں کا طرزفکر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو تعلیمی ادارے ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے والے اعلیٰ افسران اور لیڈرز تیار کرتے ہیں، وہ روایتی سیاست اور سیاست دانوں سے نالاں ہیں۔ سیانے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایلیٹ کے علاقوں کے لوگ بھی روایتی سیاست دانوں سے طویل فاصلے پر ہیں۔

میرے استاد محترم نے بھی ایک بنیادی نکتہ اٹھایا ہے کہ موجودہ سیاسی نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کا بیانیہ اپنے حریف عمران خان کے ویژن کے خلاف ہے، اس لئے انہیں کوئی سروکار نہیں کہ دور دراز کا نوجوان کن مسائل سے گزر رہا ہے۔ وہ جس اسکول ، کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، کیا وہ جدید تقاجوں سے ہم آہنگ بھی ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو اقتدار کے ایوانوں اور فیصلہ سازی سے دور کیوں رکھنا چاہتی ہیںَ؟ نوجوانوں کو مواقع دینے کے وعدے کرنے والی سیاسی جماعتیں انہیں ٹکٹ دینے سے ہچکچاتی کیوں ہیں؟
عام نوجوان کے لیے منتخب ہونا ناممکن کیوں تصور کیا جاتا ہے؟

جوابات میں پہلا نکتہ تو یہ عرض ہے کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران انتخابات سے قبل سیاست دانوں کی جانب سے نوجوانوں کو بہتر مواقع دینے اور مستقبل کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جانا تو معمول رہا ہے، لیکن پارلیمان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ بزرگ سیاسی رہنماوں کو اپنے خاندانوں سے باہر موجود سیاسی نوجوانوں پر اعتماد اور اعتبار ہی نہیں۔ اسی لئے وہ غریب کے بچوں کو صرف کھوکھلے نعرے تو دے سکتےہیں لیکن کسی غریب کے گھر میں چراغ روشن ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔

دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی نوجوانوں، نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دینے میں ہمیشہ ہچکچاتی رہیں۔

میری اسکول ٹیچر نے اس کا تجزیہ یوں کیا کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے مڈل کلاس سیاسی کارکنوں کے لیے سیاست میں جگہ کم پڑگئی۔۔ سیاست میں نظریات کے بجائے روپیہ پیسہ شامل ہو گیا۔ اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی لگنا بھی ایک وجہ ہے کہ نوجوان سیاست میں فعال نظر نہیں آتے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے تنظیمی ڈھانچے اس طرح رکھے ہیں کہ عام نوجوان کارکن انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے بھی اوپر نہیں آسکتا۔ ایک اور اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ الیکشن اس قدر مہنگا کر دیا گیا ہے کہ عام آدمی اس میدان میں اترنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ میری سہلیوں کا کہنا ہے کہ یہ ملک صرف امیروں کا ہے، اگر کوئی نوجوان بااثر خاندان سے بھی نہیں اور بے پناہ دولت بھی نہیں رکھتا تو الیکشن میں اتر کر بھی ہار جائے گا۔
دنیا بھر کی مضبوط جمہوریتوں میں طلبا یونین، ٹریڈ یونین، کسان کمیٹیوں اور سول سوسائٹی کی بڑی تنظیموں سے آتی ہے تاہم پاکستان میں یہ نظام کئی دہائیوں سے تقریباً غیر فعال ہے۔

اس تجزیئے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو جو سہانے خواب دکھا رہی ہیں، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور نوجوان بھی اقبال کا یہ پڑھایا ہوا یہ سبق بھول چکے ہیں کہ
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے بند ہیں.