بلاول کا اعتراف، مریم کا جوابی وار!

83

بعض حقائق کا علم کشف وابہام سے نہیں بلکہ واقعیاتی شواہد سے بھی ہو جاتا ہے ان سطور میں کئی بار نشاندہی کی گئی ہے کہ عمران خان نے حامد خان، احمد اویس اور پارٹی میں موجود ان ہی کی سطح کے دیگر وکلاء کو نظر انداز کرکے جن وکلاء کا انتخاب کیا ہے ان کی سیاسی وابستگی پی ٹی آئی میں شمولیت سے محض چند ہفتے قبل پیپلز پارٹی سے رہی ہے موجودہ چیئرمین گوہر علی نے 2018ء کا الیکشن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا۔ لطیف کھوسہ پی ٹی آئی میں شمولیت سے صرف چند روز قبل تک پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے رکن تھے گزشتہ کئی برسوں کا ریکارڈ دیکھا جائے اعتزاز احسن نے آصف زرداری یا بلاول زرداری کے حق میں ایک جملہ نہیں کہا اس طویل مدت میں عمران کی حمایت میں رطب اللسان رہے یا عمران کے سیاسی مخالف نواز شریف پر گولہ باری کرتے رہے لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے اس طویل مدت میں ایک بار بھی شوکاز نوٹس نہیں دیاگیا کہ ”آپ پیپلز پارٹی کے رہنما نہیں لیکن مسلسل پیپلز پارٹی کے مخالف عمران کی حمایت کررہے ہیں اس کا جواب دیں“ لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی پیپلزپارٹی میں اہم ہیں اور لاہور میں بلاول کی مہم چلا رہے ہیں کیا یہ حقائق اس یقین کو تقویت نہیں دیتے کہ یہ پی ٹی آئی میں پلانٹ کئے گئے تھے تاکہ اسے نقصان پہنچا سکیں اور پی ٹی آئی کے ووٹرز کو پی پی پی کی جانب راغب کرسکیں۔ تاکہ جب ان کے ہاتھوں پی ٹی آئی کسی انجام کو پہنچ جائے تو ایسے حضرات کی وجہ سے ان ووٹرز کو پیپلزپارٹی زیادہ قریب محسوس ہو بلاول کے پی ٹی آئی ووٹرز کیلئے چکنے چپڑے بیانات کا پس منظر یہی ہے ، اور اب تو مالاکنڈ جلسہ میں بلاول نے خود اعتراف کرلیا کہ ”عمران کے وکلاء پلانٹڈ ہیں“۔

اس سے زیادہ ستم طریفی کیا ہوگی بلاول نے جس منہ سے کہا تھا ”سندھ کو شہباز سپیڈ کی ضرورت ہے“ ، اس منہ سے شہباز شریف کو مناظرہ کا چیلنج کیا ہے کہ ”پیپلزپارٹی کے پندرہ سالہ دور میں سندھ سے زیادہ ترقی کی ہے یا (ن) لیگ کی حکومت میں پنجاب نے زیادہ ترقی ہے“۔

نارووال میں جلسہ سے خطاب میں مریم نے اس کا جواب یوں دیا ہے ۔ ”آج کل کسی کو مناظرہ کرنے کا بہت شوق آیا ہوا ہے، آؤ مناظرہ کرتے ہیں شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بنائی اگر آپ نے اس سے اچھی سندھ میں بنائی ہے تو مناظرہ بنتا ہے اگر آپ نے شہباز شریف کی اورنج ٹرین سے اچھی ٹرین کراچی میں چلائی ہے تو مناظرہ بنتا ہے، شہباز شریف سے اچھے دانش سکول سندھ میں بنائے ہیں تو مناطرہ بنتا ہے۔ سندھ بھی میرا صوبہ ہے اور میری دل سے دعا ہے کہ وہ دن بھی آئے جب سندھ کو ترقی ملے اور وہاں کے عوام بھی غربت اور پسماندگی سے نکلیں“۔

پیپلز پارٹی کے ایک حامی میڈیا پرسن نے بڑی شوخی کا مظاہرہ کیا تھا کہ ”مناظرہ کا چیلنج دے کر بلاول نے گیند نوازشریف کے کورت میں ڈال دی ہے”۔ کیا وہ میڈیا پرسن اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہیں گے ”مریم  نے وہ گیند واپس بلاول کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔“

جہاں تک سندھ بشمول کراچی کا پیپلزپارٹی کے پندرہ سالہ دور میں ترقی کا تعلق ہے یہ تو اتنا آسان ترین معاملہ ہے کہ اس پر تو کراچی یا سندھ کاعام شہری بھی بلاول سے مقابلہ کر سکتا ہے لیکن سماجی ومالی حیثیت سے انہیں اس قابل نہ سمجھا جائے جو بلاول کو حاصل ہے۔ حالانکہ حقیقی سٹیک ہولڈروہی ہیں اور ان کو ہی ترقی سے خوشحالی اور ترقی نہ ہونے سے بدحالی مقدر بنتی ہے اس لئے ان سے بہتر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تاہم بلاول کے ہم پلہ نہ سہی مالی لحاظ سے مقابلہ کر سکین یا نہ کرسکیں سماجی حیثیت میں کم تر نہیں ہیں ان میں این اے 229 سے (ن) لیگ کے امیدوار قادر بخش کلمی (ن) لیگ کراچی کے رہنما شوکت علی جٹ، جمعیت علماء اسلام کے رہنما قاری عثمان، جی ڈی اے کے رہنما سردار عبدالرحیم، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، اے این پی کے رہنما شاہی سید، جماعت اسلامی کے رہنماء حافظ نعیم الرحمن، ایم کیو ایم حقیقی کے رہنما آفاق احمد اور جہاں تک اندرون سندھ کا تعلق ہے، فنکشنل مسلم لیگ کے صدر الدین راشدی، جمعیت علماء اسلام کے راشد محمود سومرو، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، سائرہ بانو، قوم پرست رہنما ایاز لطیف پلیجو، قادر مگسی سمیت جس سے چاہیں مناظرہ کرلیں کراچی اور سندھ کی ترقی پوری طرح بے نقاب ہو کر سامنے آجائے گی ۔ جو کراچی اور سندھ کو ترقی دینے کا دعویٰ پوری ڈھٹائی سے کر رہا ہے اس کے 300 یونٹ بجلی مفت دینے اور 30 لاکھ گھر دینے کے وعدہ کی حقیقت کا اندازہ بھی اس سے لگایا جا سکتا ہے۔

عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس میں 14سال قید کی سزا دینے کے بعد پراسرار طورپر اڈیالہ جیل کی بجائے بنی گالہ کو سب جیل قرار دے کر وہاں بھیجنے کا معاملہ عام موضوع بحث بن گیا ہے، سزا سے ایک روز قبل انہیں کالے شیشوں والی گاڑی میں نامعلوم مقام لے جایا گیا تھا آدھا گھنٹہ بعد نیب میں واپسی ہوئی اس آدھا گھنٹہ کی پراسرار ملاقات کو انہیں جیل کی بجائے بنی گالہ بھیجے جانے کا پس منظر بیان کیا جارہا ہے البتہ بشریٰ بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی سے ڈیل نہیں کی بلکہ انہیں ریسٹ ہاؤس لے جانے کا کہہ کر بنی گالہ پہنچا دیا گیا ہے ۔ عمران نے کہا ہماری پارٹی کی خواتین جیل میں ہیں ہم بنی گالہ کی درخواست کیسے کرسکتے ہیں۔

تسلیم کر لیا جائے بنی گالہ کی درخواست نہیں کی گئی مگر ریسٹ ہاؤس جانے پر آمادگی کا اظہار تو بشریٰ بی بی نے خود کیا ہے کیا پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین ریسٹ ہاؤس میں ہیں ۔ اس کے برعکس جب مریم نواز کو سزادی گئی تو ریسٹ ہاؤس جانے کی پیشکش قبول نہیں کی تھی بلکہ قید کی تمام مدت جیل میں گزاری جہاں عمران حکومت نے واش روم میں کیمرا لگانے تک کی شرمناک گھٹیا حرکت کی تھی، وفاقی وزیر داخلہ گوہراعجاز انکاری ہیں کہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ بھجوانے کے سلسلے میں ان سے رابطہ یا مشورہ نہیں کیا گیا جبکہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس سوال کا جواب نہیں دیا جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ یہ کارروائی ان کے حکم سے ہوئی ہے ورنہ چیف کمشنر اسلام آبادنے بنی گالہ کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفکیشن کس کے حکم پر جاری کیا ہے ۔ اگر خاتون ہونے کی وجہ سے بشریٰ بی بی کے ساتھ یہ ”مہربانی“ کی گئی ہے تو پھر ڈاکٹر یاسمین راشد ، صعی جاوید ، خدیجہ شاہ بھی خواتین ہی ہیں ان کے گھروں کو بھی سب جیل قرار دے کر سب کے ساتھ یکساں سلوک کے انصاف کے تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں۔

تبصرے بند ہیں.