لیول پلئینگ فیلڈ

29

پتا نہیں کون احمق ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ تحریک انصاف کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں مل رہی۔ 2018 کے الیکشن 25 جولائی کو ہوئے تھے اور میرے ہر دل عزیز رہنما میاں نواز شریف کو 6 جولائی 2018 کو دس سال کے لئے نا اہل قرار دیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ مریم نواز صاحبہ اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو سات سات سال کے لئے نا اہل قرار دیا جاتا ہے ۔ 2024 کے الیکشن 8 فروری کو ہونے ہیں اور عدالت کی جانب سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 30 جنوری 2024 کو سائفر کیس میں دس سال سزائے قید با مشقت اور دس سال کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ یہ میاں نواز شریف اور کیپٹن صفدر کے ساتھ لیول پلئینگ فیلڈ ہو گئی لیکن مریم نواز صاحبہ بھی شامل تھیں تو اس کے لئے اس سے اگلے ہی دن یعنی 31 جنوری کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ساتھ بشریٰ بی بی کو چودہ 14سال قید اورکسی بھی عوامی عہدے کے لئے نا اہل اور ایک ارب57کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ اب اس کے بعد کون ہو گا کہ جو یہ شکوہ کر سکے کہ تحریک انصاف کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی۔ سزا کے حوالے سے یاد آیا کہ قانون کے نفاذ کے معاملہ میں بھی لیول پلئینگ فیلڈ سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا نواز لیگ کسی کی جانب سے ان سزائوں پر مٹھائیاں نہیں بانٹی گئیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے تو مالاکنڈ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ انھیں ان سزائوں سے کوئی خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ وقت جشن منانے کا ہے۔ کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کو ایسے کسی بھی موقع پر خوشی نہیں ہوتی بلکہ اس طرح کی صورت حال میں ان کے لئے عبرت کا سامان ہوتا ہے۔ ہمیں بڑی خوشی ہوتی کہ اگر محترمہ بشریٰ بی بی کو سزا نہ ہوتی لیکن اگر انھیں سزا ہوئی ہے اور وہ بھی 14سال قید با مشقت کی تو پھر انھیں کس قانون کے تحت جیل کے بجائے ان کے گھر بنی گالہ میں رکھا جا رہا ہے ۔ بشریٰ بی بی اس ملک کی خاتون اول رہ چکی ہے اور وہ عمران خان کی اہلیہ ہیں یقینا ان کا بڑا مرتبہ ہے لیکن کیامحترمہ مریم نواز جو تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کی بیٹی اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی رہنما ہیں کیا ان کی کوئی عزت
نہیں تھی کہ انھیں جیل میں رکھا گیا ۔

محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ بھی اس ملک کی خاتون اول رہ چکی تھیں اور محترمہ شہید بینظیر بھٹو صاحبہ کہ جمہوریت کے لئے ان ماں بیٹی دونوں کی جو خدمات اور قربانیاں ہیں کیا بشریٰ بی بی کی پوری زندگی کا کردار ان قربانیوں کا عشیر عشیر بھی ہے تو یہ تمام خواتین جن میں فریال تالپور کو بھی شامل کر لیں اگر انھیں جیل میں رکھا جا سکتا ہے تو ملک میں قانون نام کی اگر کوئی چیز موجود ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو کس قانون کے تحت جیل کے بجائے ان کے گھر بنی گالہ لے جا کر رکھا جا رہا ہے۔ خدا کے واسطے اس ملک کو اور اس ملک کے آئین او ر قانون کو مذاق نہ بنائیں اگر بشریٰ بی بی کو جیل میں نہیں رکھنا تھا تو یقین جانیں کہ اس سے اچھی کوئی اور بات نہ ہوتی لیکن اس کا بہترین طریقہ یہ ہوتا کہ انھیں اس مقدمہ سے با عزت بری کر دیا جاتا لیکن سزا دینے کے بعد اگر انھیں جیل کے بجائے ان کے گھر میں رکھا جاتا ہے تو اس وقت ملک کی جیلوں میں ہزاروں کی تعداد میں گھریلو پردہ دار خواتین مختلف جرائم میںسزا کاٹ رہی ہیں اور ان میں سے بہت سی تو ایسی بھی ہوں گی کہ جنھیں ابھی سزا نہیں ہوئی لیکن وہ قید ہیں تو ان سب کو بھی گھروں میں نظر بند کر دیا جائے بلکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کے تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوں گے تو انھیں بھی گھروں میں منتقل کر دیں تا کہ ایک عام آدمی کو بھی لیول پلیئنگ فیلڈ مل جائے۔

جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو اس میں اول و آخر کسی اور کا نہیں بلکہ خود عمران خان کا اپنا قصور ہے ۔ اس لئے کہ سائفر کی ایک کاپی کا ان کے پاس ہونا اور پھر ان سے کہیں گم ہونے کا اعتراف عمران خان میڈیا پر ایک سے زائد بار کر چکے ہیں اور توشہ خانہ کیس میں بھی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ راولپنڈی کی جس دکان کی رسیدیں میڈیا کو دکھائی گئیں وہ ہی غلط ثابت ہوئیں لیکن چلیں اس کے بعد کیس تو قانون کے تقاضوں کے مطابق لڑا جاتا ہے لیکن انھوںنے سارے کا سارا انحصار سوشل میڈیا پر تشہیری مہم اور وکلاء کی طفل تسلیوں پر رکھا ۔ یہ بات ہماری رائے نہیں ہے بلکہ سزا کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان کا بیان ہے جو انھوں نے میڈیا کو دیا کہ وکیل کیوں نہیں سمجھ سکے کہ وہ سزا سے نہیں بچا پائیں گے اور انھوںنے تو کہا تھا کہ ملک بھر کی تمام وکلاء تنظیمیں اور بار ایسوسی ایشنز ان کے ساتھ کھڑی ہیں ۔ان کے اس بیان سے ایک تو ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسرا ان کے اس بیان سے ایک بات کھل کر سامنے آ گئی کہ ان کے اندر کس حد تک سیاسی سمجھ بوجھ ہے اس لئے کہ جسے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تھوڑا سا بھی علم ہے انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں سیاسی کیسز کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور ان کا کس طرح سامنا کیا جاتا ہے ۔عمران خان نے اپنا سارا زور مکار کردگی اور چالاکیوں پر رکھا کہ بار بار اپنے وکیل بدلتے رہے اور پھر آخر میں تو تاخیری حربے اس حد تک بڑھے کہ وکلاء کی غیر حاضری کو جواز بنا کر سمجھا گیا کہ ہم سے زیادہ چالاک کوئی اور نہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گواہان پر حق جرح بھی جاتا رہا۔ بہرحال ابھی خان صاحب کے پاس ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ دو فورم ہیں اور امید ہے کہ ان سزائوں کے بعد خان صاحب کو پاکستان کے نظام عدل کو سمجھنے میں مدد ملی ہو گی اور وہ آئندہ اپنے خلاف مقدمات کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔

تبصرے بند ہیں.