منشور کسی بھی سیاسی جماعت کاوہ پروگرام ہوتا ہے جو اس کے وڑن اور آئندہ کے لائحہ عمل کا عکاس ہوتا ہے اس کے ذریعے سیاسی جماعت اور اسکی قیادت عوام کو بتاتی ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر ان کے لئے کیا کرے گی اور انکے مسائل کے حل کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔ گویا منشور کسی بھی سیاسی جماعت اور اسکی قیادت کا مستقبل کا روڈ میپ ہوتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے کمیونسٹ پارٹی کا منشور، ایک ایسی دستاویز ہے جس پر نہ صرف بالشویک پارٹی نے عظیم اشتراکی ریاست کھڑی کی بلکہ تمام سوشلسٹ ممالک کے لئے نشان منزل کا کردار ادا کیا۔ اشتراکیت کو مختصراً سمجھنے اور جاننے کے لئے یہ منشور کلیدی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمہوری نظام سیاست میں منشور سیاسی جماعت کے لئے مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ الیکشن 2024 میں متعدد قومی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (نواز)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک میدان عمل میں ہیں اس کے علاوہ جمعیت علما اسلام، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور دیگر علاقائی جماعتیں بشمول ولی خان پارٹی و غیر ہم انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تین جماعتیں بشمول پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز مرکزی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا ووٹ بنک بھی ہے اور وہ مرکزی اور صوبائی سطح پر حکمرانی کا تجربہ بھی رکھتی ہیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ طویل عرصے تک حکمرانی کا ریکارڈ تجربہ رکھتی ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی سب سے سینئر سیاسی جماعت ہے جوجنرل ایوب خان کے طویل حکمرانی کے ری ایکشن میں قیام پذیر ہوئی۔ 1947 تا 1956، 9 سالہ دور حکمرانی سیاستدانوں اور سول بیورو کریسی کے درمیان چپقلش اور بیوروکریسی کی جمہوریت کے خلاف سازشوں سے عبارت ہے اس میں سپریم کورٹ نے بھی منفی کردار ادا کیا جسٹس منیرکے نظریہ نے سیاسی نظام کو ایسا ڈی ریل کیا کہ چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود نظام ابھی تک واپس سیڑھی پر نہیں چڑھ سکا۔ پھر جنرل ایوب خان جو یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے نے شب خون مار کر نظام کی بسا ط ہی لپیٹ دی 1958 میں آنے والے مارشل لانے سیاسی نظام میں فوجی مداخلت اور ملک پر آمریت قائم کرنے کی راہ ہموار کی ہمارا نظام ابھی تک اس جبر اور مداخلت سے باہر نہیں نکل سکا ہے اب تو حد یہ ہے کہ اس وقت ملک کی قومی قیادت اور دیگر قابل ذکر سیاستدان ہر وقت فوج سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار رہتے ہیں اب توایسا بھی ہو رہا ہے کہ ایک ہی سیاسی جماعت میں دو گروپ ہوتے ہیں ایک فوج کے ساتھ مل جل کر چلنے اس کی تابعداری کرنے کے لئے مشہور ہوتا ہے جب کہ دوسرا عوامی امنگوں کے مطابق جمہوریت اور ووٹ کی تقدیس و حرمت کا نگہبان بن کر سامنے آتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی مثال دیکھ لیں۔ شہاز شریف کھلے عام فوج کے پسندیدہ لیڈر کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں انہیں اس بات یا شہرت سے کوئی الرجی یا ناپسندیدگی بھی نہیں ہے جبکہ دوسری طرف نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز اسٹیلبشمنٹ کو للکار نے اور عوام کی ترجمانی کے لئے مشہور ہیں ووٹ کی عزت کے نگہباں کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی انجینئرنگ کا شاہکار ہیں دوسری طرف پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے لے کر نچلی سطح کے ایم این اے اور ایم پی اے تک لین دین اور کامیابی سے لین دین کرنے والے کے شہرت رکھتے ہیں دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری عوامی امنگوں کے ترجمان، للکارنے اور پچھاڑنے والے کے طور پر سامنے آئے ہیں موجودہ پیپلز پارٹی کے یہ دو چہرے بھی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کا جنرل مشرف کے ساتھ این آر او بھی ہماری سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے سایہ عاطفت میں اقتدار میں آئے پھر انہوں نے آزادانہ حیثیت میں پیپلز پارٹی تشکیل دی۔ ایک نظریے، ایک مفکر اور ہمہ گر تبدیلی کے منشور پر الیکشن لڑا اور اقتدار میں آئے۔ اجڑے پاکستان کی تعمیر نو کا کام کیا۔ 1983 کا دستور دیا۔ قوم کو امید دلائی شکست خوردہ قوم کو ہمت کے ساتھ نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے آمادہ پیکار کیا لیکن 1977کے انتخابات میں دھاندلی کے باعث شروع ہونے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق مارشل لانے تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور ہم ایک نئے سفر پر چل نکلے پھر بے نظیر بھٹو سے ہوتی ہوئی پیپلز پارٹی، پہلے آصف علی زرداری کے ہاتھوں گزر کر اب بلاول بھٹو کی قیادت سے دوبارہ زندہ ہونے کی کاوشیں کرتی نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی، جاری سیاسی نظام کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کے جواب میں تبدیلی کا نعرہ لے کر قومی سیاسی منظر پر ابھری۔ فکری اور نظری اعتبار سے طاقتور بیانیہ تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ جدید ابلاغی ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے ذریعے اس جماعت نے پڑے لکھے نوجوانوں کی خاصی تعداد کو متاثر کیا۔ عمران خان کے غیر روایتی انداز تکلم اور سیاست نے انہیں قومی سطح پرایک بڑے سیاستدان کے طور پر ابھارا۔
2011 میں ہماری، اسٹیبلشمنٹ نے انہیں آئندہ کی سیاست میں فیصلہ کن رول ادا کرنے کے لئے چن لیا پھر نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنے کے لئے عمران خان کو استعمال کیا گیا 2018ء میں اسے اقتدار کے سنگھاسن پر لا بٹھایا گیا 44 ماہ کے دوران اکبری نے ایسا کچھ کر دکھایا جو کسی طور بھی قابل قبول نہیں تھا اب عمران خان اور انکی جماعت ایک ملک دشمن اور ناپسندیدہ پارٹی کے طور پر میدان میں ہے۔ اس وقت عملاً دو جماعتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی نظر آ رہی ہے پیپلز پارٹی اور ن لیگ لیکن تاثر یہی ہے کہ ن لیگ بر سر اقتدار لانے کا فیصلہ ہو چکا ہے جبکہ آئی پی پی مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم و دیگر آزاد ممبران کے اشتراک سے وسیع البنیاد حکومت بننے جا رہی تھے۔ کسی بھی پارٹی کا اعلانیہ منشور اس قابل نہیں ہے کہ اسے ماڈل یا مثالی قرار دیا جا سکے سب نے وعدے وعید کئے ہیں کسی نے یہ نہیں بتا یا کہ مہنگائی کیسے کم ہو گی، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں کیسے کم کی جائیں گی، قدر زر میں بہتری کیسے لائی جائے گی، قرضوں پر بڑھتے ہوئے سود کو کیسے روکا جائے گا؟ قرض کیسے ادا کیا جائے گا؟ آئی ایم ایف کے بغیر معیشت کیسے چلائی جائے گی؟ کسی نے ان باتوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ نہ کسی سیاستدان کو یہ ہے کہ ایسا کچھ کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ ن لیگ اپنی تاریخ کے لیے بڑے جو رائے پر کھڑی ہے اس وقت چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے یا دانستگی سے یا بھول پن سے، اس نے اپنے آپ کو قوم کی آخری امید بنا ڈالا ہے۔ نظام کا سارا گند صاف کرنے کی ذمہ داری ن لیگ کے کندھوں پر آن پڑی ہے قوم کی سچی جھوٹی امیدیں ن لیگ سے وابستہ ہو چکی ہیں معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں لیکن ن لیگ بہرحال اس وقت عوامی کٹہرے میں کھڑی ہو چکی ہے اگر وہ تبدیلی نہ لا سکی عوامی امنگوں کے مطابق معاملات آگے نہ بڑھاسکی تو وہ سیاسی افق سے ایسے ہی غائب ہوتی نظر آئے گی جیسے پی ٹی آئی غائب ہوتی نظر آرہی ہے۔ باقی غیب کا علم تو اللہ پاک کی ذات کے پاس ہی ہے۔
تبصرے بند ہیں.