اشرافیہ اور عوام کی زندگی میں فرق؟

79

پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے ولا سکندر دنیا سے خالی ہاتھ جانے سے پہلے اپنے استاد ارسطو سے پوچھتا ہے ”بابا ریاستیں کب تباہ ہوتی ہیں“ اس نے ہنس کر جواب دیا ”جب بادشاہ عوام کی انتڑیوں پر دسترخوان پر سجانے لگیں“ ارسطو کا محولہ بالا جملہ پاکستان کے حالات کا مکمل نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتا ہے کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ تو انتڑیوں سے بھی آگے جاکر ہماری زندہ لاشوں تک کو نوچ رہے ہیں اور پھر بھی ان کے شکم پر نہیں ہو رہے۔ میں جب بھی ان بڑی توندوالوں کو لش پش کرتی سرکاری خزانے (عوام کے پیسوں) سے خریدی گئی مہنگی گاڑیوں اور مہنگے برانڈز کے سوٹ بوٹ پہنے بڑی شان بے نیازی سے گردنیں اکڑائے بیٹھے دیکھتا ہوں تو مجھے اس بات کا اندازہ لگانے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ ان کی قیمت یہ ظالم حکمران نت نئے ٹیکس لگا کر عوام کے پیٹ سے نکالتے ہیں ۔یہ اس ملک کے حکمران ہیں جہاں کی ایک بڑی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، جہاں لوگ دوا اور روٹی کے لئے گردے تک بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہماری اشرافیہ کے بارے میںدنیا بھی یہ کہتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر ہمارے دیئے گئے پیسوں اور خیرات سے عیاشیاں کرتے ہیں دنیا نے، ”اکڑ خانوں“ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کے لئے کئی امدادی پروگرام بند کر دیئے گئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کچھ تو خدا کا خوف کرو عوام کی امانت میں خیانت بند کر دو اگر ایسا نہ کیا تو ہم بھی پھر یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کے ان ”شاہ خرچوں“ کو مزید امدد دینی بھی چاہیے یا نہیں۔
کچھ عرصہ پیشتر دنیا بھر میں غربت کے خاتمے اور کمی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے آکسفیم نے مطالبہ کیا تھا کہ کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی غیر مساوی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ایک عالمی سمجھوتہ کیا جائے۔آکسفیم نے ورلڈ اکنامک فورم پر جمع ہونے والے عالمی رہنماؤں کو تجاویز دی تھیں کہ عالمی سطح پر کارپوریشنز پر ٹیکس کی شرح، عوام کی مفت فلاحی سروسز میں زیادہ سرمایہ کاری کی جائے اور بےروزگار لوگوں، بیماروں کے لیے زیادہ تحفط فراہم کیا جائے۔ اس تنظیم کا یہ بھی کہنا تھا عالمی رہنما نظام میں اصلاحات کریں تاکہ یہ صرف عالمی اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے مفادات کے لیے کام کرے۔ کیا پاکستان کی اشرافیہ کو بھی کوئی یہ احساس دلا سکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم معاشروں میں ٹوٹ پھوٹ کا باعث بننے کے ساتھ معاشروں کی تباہی بھی لاتی ہے ہمارا معاشرہ اس کی زندہ مثال ہے حالات اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اشرافیہ نے اگر حالات کی سنگینی کا احساس نہ کیا تو ممکن ہے انقلاب پرانے لوگوں کو مارنے سے نہیں”نرم ہاتھوں“ کی تلاش سے شروع ہوجائے جن کے دستر خوان تو انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں لیکن عوام کو مشورہ ”ایک روٹی“ کھانے کا دیتے ہیں۔ اس لیے انتڑیوں پر دسترخوان سجانے کی روش کو ختم کر دینے میں ہی بھلائی نظر آتی ہے اگر کوئی سمجھے تو!۔

ہمارے ملک میں تو غربت کا نام و نشان دور دور تک نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دنیابھر میں دودھ، آم پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر ہے جبکہ پاکستان ان تمام لوازمات، نعمتوں، وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے جن کی بدولت یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا، گندم پیدا کرنے والا آٹھواں اور چاول پیدا کرنے والا دسواں بڑا ملک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس کا شمار 34ویں، زرخیز زمین کے حوالے سے 52ویں، آبادی کے حوالے سے چھٹا، افرادی قوت کے حوالے سے 10ویں جبکہ گیس کے ذخائر کے حوالے سے 29ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن کی اندازاً مالیت کئی ٹریلین ڈالر ہے اور ان ذخائر سے 100 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اسی طرح سونے، چاندی، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر ہیں جن کی مالیت بلاشبہ کھربوں ڈالر ہے۔ پاکستان کی بندرگاہوں کا شمار دنیا کی بڑی پورٹس میں ہوتا ہے اور یہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک کا گیٹ وے ہے۔ اس لحاظ سے تو ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شامل ہونا چاہئے، برآمدات، توانائی کی پیداوار، جی ڈی پی، صنعتوں کی ترقی، تعلیم اور صحت سمیت ہر حوالے سے ہمارا شمار کم از کم 20 ٹاپ ممالک میں ہونا چاہئے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ فی کس جی ڈی پی کے حوالے سے ہم دنیا میں 135ویں، شرح خواندگی کے حوالے سے 159ویں، برآمدات کے حوالے سے 61ویں، ماحولیات کے حوالے سے 131ویں درجے پر ہیں، آسان کاروباری ماحول والے ممالک میں ہمارا شمار 76ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ پانی ہمیں بے تحاشا میسر ہے لیکن ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے اور چھوٹے ڈیموں کی قلت ہے، چنانچہ ہر سال ساڑھے تین کروڑ ایکڑ فٹ سے زائد پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے، دوسری طرف نو ملین ہیکٹر زرخیز زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار پڑی ہے۔

کیا یہ ظلم عظیم نہیںکہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اور کم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے، جن کے بچے شدید گرمی اور سردی میں تن ڈھانپنے کے لیے دو گز کپڑوں کے لیے بھی ترستے ہیں۔ جو چھت اور چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔ جو علاج معالجے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جن کے بچے حصولِ تعلیم کے خواب دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں،پاکستان کی لے پالک اشرافیہ اور حاکموں کے کرتوتوں کی وجہ سے ایک ایسے ملک میں جہاں قدرت کی فیاضی پر دنیا بھر کی مملکتیں انگشت بدنداں ہیں وہاں اس ملک کی اکثریتی آبادی کو اپنے ہی ملک کی پیداوار میسر نہیں، یہاں ارض وطن میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ جن کی حالت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہے۔ تنگ وتاریک گلیوں ،کچی بستیوں اور جھونپڑیوں کے یہ مکین، کہنے سننے اور دیکھنے کی حد تک تو پاکستانی اور انسان ہیں، لیکن کھلی اور واضح حقیقت تو یہی ہے کہ ان کا پاکستان کے وسائل اور پاکستان کی دولت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان کا نصیب ہے؟ اگر یہ ان کا نصیب نہیں ہے تو پھر یہ اپنا نصیب بدلتے کیوں نہیں، کسی نے کہا تھا کہ غریب پیدا ہونا کوئی جرم نہیں مگر غریب مرنا جرم ہے۔

تبصرے بند ہیں.