ہر طرف لاشے ہی لاشے دیکھ کر دل و دماغ ساتھ نہیں دے رہا، جلے ،کٹے خون میں لت پت انسانی اعضائ،درد بھری چیخ و پُکار ہر سُو چھایا کرب ہزاروں پُر نم آنکھیں،سوگوار فضانے دلوں سے سکون اور آنکھوں سے نیند چھین لی ہے ،سمجھ نہیں آ رہا کیا لکھوں مائوں سے ان کے جگر گوشے بچھڑ گئے سہاگنوں کے سہاگ لٹ گئے،غزہ میں تین ماہ سے قیامت برپا ہے اورہم تماشہ دیکھ رہے ہیں ہم یہ بھی کہتے ہیں عاشق رسول ﷺہیں ہم یہ بھی کہتے ہیں عاشق صحابہ ہیں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم عاشق اہل بیت ہیں غزہ میں رہنے والے بھی پکے اور سچے مسلمان ہیں پھر انہیں کیوں امت نظر انداز کر رہی ہے کیوں ان کا ساتھ نہیں دے رہی کیوں بچوں بڑوں عورتوںکو کٹتا دیکھ رہے ہیں غیرمسلم ممالک میں روزانہ فلسطینیوں کے حق میں احتجاج ہورہا ہے اور مسلم ممالک خواب خرگوش میں ہیں۔ غزہ میں اب تک 24 ہزار سے زائد افراد تہہ تیغ کر دئیے گئے جبکہ 70 ہزار سے زائد زخمی ہیں ہزاروں کی تعداد میں بچے شہادت کے رتبے پر فائز ہو چکے ہیں ظالم اسرائیل ابھی بھی خون کا پیاسا ہے ہرطرف ماتم ہو رہا ہے طاغوت رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا کھلے عام نسل کشی کر رہا ہے آج بھی وہاں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں غزہ جہاں زندگی کے نغمے گونجتے تھے، آج موت کی ارزانی پر ہر طرف بین ہی بین سنائی دے رہے ہیں، ہر سوقتل و غارت کی سازشیں ہیں دل کرچی کرچی ہیں، روز لاشیں گرتی ہیں، مسلم ممالک کی بے حسی پرکیا کہا جائے؟ کیا لکھا جائے؟موت کا رقص ہو رہا ہے ہر درددل رکھنے والا غمگیں ہے، ہر کوئی رو رہا ہے، اتنے لوگ مرے کہ بے شمار ہسپتال اور مردہ خانے، لاشیں سنبھالنے سے قاصر ہو گئے، قبرستانوں میں جگہ ملنا مشکل ہو گیااجتماعی قبریں بنائی جا رہی ہیں رجب مبارک شروع ہو چکا اللہ کی طرف رجوع کریں، اس سے لو لگائیں، رمضان المبارک آ رہا ہے اس ماہ مبارک میں خوب گڑ گڑا کرغزہ کے مظلوموں کو دعائوں میں شامل کرلیں کہ اللہ پاک ہماری دعائیں قبول کر لے اور اسرائیل تباہ وبرباد ہو جائے مسلمان ممالک عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی
کے مقدمہ میں فریق بننا چاہیے تھا جو کام ہم نہ کر سکے وہ جنوبی افریقہ نے کردکھایا غزہ پر وحشیانہ بمباری میں اکثریت شہیدبچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے، سکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں پر صیہونی فوج کی بمباری اب بھی جاری ہے اوردنیا تماشہ دیکھ رہی ہے ،غزہ میں 80 فیصد گھر تباہ کر دیئے گئے ہیں اور 90 فیصد آبادی شدید سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، بیس لاکھ سے زائد افراد تک بجلی، گیس، تیل کے علاوہ خوراک، پانی اور جان بچانے والی ادویات کی رسائی بھی روک کرزندگی انتہائی مشکل بنا دی گئی،اسرائیل، امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل اور غیر مشروط معاونت کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے، جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کا مقدمہ دائر کرنے کے اقدام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 57 مسلم ممالک غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کے خلاف متحد ہو کر عملی اقدامات اٹھاتے لیکن افسوس مسلمان ممالک نے نسل کشی کے مقدمے میں فریق بننے کی جرآ ت نہیں کی، غزہ کے مسلمانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو ممالک اور جہادی گروہ اسرائیل اور امریکہ کے عسکری و تجارتی مفادات پر کسی بھی طریقے سے ضرب لگا رہے ہیں ان کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں، پاکستان کسی صورت میں حوثیوں کے خلاف امریکی کارروائیوں کا حصہ نہ بنے، اسرائیل اور امریکہ جنگ کو پھیلانے پر تلا ہوا ہے غزہ میں معصوم بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اس بارے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایسے کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے کہ جن سے بچے زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں کیونکہ وہ معصوم پھول ہوتے ہیں اور ہلاکت خیزی کو برداشت نہیں کر سکتے اور زیادہ تعدادمیںمسلے جا رہے ہیں کئی بچوں کے جسم پر زخم کے نشانات بھی نہیں ہوتے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنے ہیں غذا کی قلت بھی بچوں کی زندگیاں لے رہی ہے اور یہ مسئلہ ہر دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے، یونیسف بھی بچوں کی زندگیاں بچانے کیلئے آواز بلند کر رہا ہے لیکن امریکہ اور اس کے حواری طاقت کے نشے میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس جنگ میں تمام قاعدے قوانین پائوں تلے روندے جا رہے ہیں،عزہ میں انسانی زندگی ناپید ہو رہی ہے اسلامی ممالک قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ سکے جس کی وجہ سے اسرائیل کو اور شہہ ملی ہے، جنگی جرائم ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے امریکہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نام پر انسانی زندگیاں ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اگر وہ اس مذموم مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو مزاحمت پھر بھی نہیں رکے گی بلکہ بھرپور انداز میں اسرائیل کو جواب ملتا رہے گا اور اسرائیل کو سکون اور تحفظ نہیں ملے گادوسری طرف امریکہ چاہتا ہے کہ ایک لولی لنگڑی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا کنٹرول امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ہو لیکن یہ ناممکن منصوبہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، جیسا امریکہ اور اسرائیل چاہتا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اسے اپاہج کر دیا جائے جیسے ماضی میں ریاست کوسوا اور قبرص کے ساتھ کیا گیا جس کے پاس نہ اپنی فوج ہو گی نہ حفاظت کیلئے اسلحہ ہو گا امن فوج تعیناتی کے نام پر نیم آزاد فلسطین کو مزید نقصان پہنچایا جائے گا،مریکہ ابھی اس تلاش میں ہے کہ اس نام نہاد منصوبے کو عملی جامع کیلئے کوئی میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرے گا کیونکہ امریکہ کی پالیسی ہے کہ دشمن کے سامنے ہزار بندے کھڑے کرنے سے بہتر ہے کہ دشمن کی صفوں میں اپنا ایک بندہ کھڑا کر دیا جائے اور وہ کسی عرب ملک کو اس نام نہاد منصوبے کیلئے حمایتی بنائے گاان عربوں کے بارے میں 1937 ء میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ فلسطین کے معاملے پر عرب ممالک پراعتبار نہیں کیا جا سکتاجو آج سچ ثابت ہو رہا ہے لیکن حماس کبھی بھی اس مذموم منصوبے کو پروان نہیں چڑھنے دے گا کیونکہ جنہوں نے آزادی کیلئے خاندان کے خاندان قبروں میں اتار دیئے وہ کیوں طاغوت کے سامنے سرنگوں ہوں گے افسوس اس بات کا ہے کہ عرب ممالک فلسطین کا تماشا دیکھ رہے ہیں، شہادتوں پر بیانات کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے حالانکہ انہیں شائدپتہ نہیں کہ جلنے والے غزہ کی تپش عرب ملکوں تک بھی جائے گی؟۔
تبصرے بند ہیں.