کھاد سبسڈی، دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ

83

انگریز دور میں کمشنری نظام میں بیورو کریسی کو ہدایت کی گئی تھی کہ ملک میں مثالی طرز حکمرانی کے فروغ اور عوامی مقبولیت کے لیے اپنے معمول کے فرائض کے علاوہ اپنے علاقوں میں ایسا کچھ نہ کچھ ضرور کیا کریں جس سے عوام کا بدیشی حکومت پر اعتماد بحال رہے تاکہ وہ باغی عناصر کے سحر سے آزاد رہیں۔

ایک دفعہ کمشنر صاحب کو ایک خاتون خانہ کی طرف سے درخواست موصول ہوئی کہ اس کا خاوند صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اسے گھریلو اخراجات کے لیے جو خرچہ دیتا ہے وہ اتنا ناکافی ہے کہ ہر ماہ رقم مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔ اس وقت شاید نو آبادیاتی عدالتی نظام پوری طرح متحرک نہیں تھا۔ کمشنر نے خاوند کو طلب کیا اس کی بیوی کی شکایت درست پائی گئی۔ معاملے کی تمام جزئیات کے ملاحظہ کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ میاں صاحب ہر ماہ 50 روپے سکہ رائج الوقت کی اضافی رقم بیگم صاحبہ کو ادا کرنے کے پابند ہیں اور میاں کو ہدایت کی گئی کہ مذکورہ رقم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو وہ کمشنر آفس میں جمع کرائیں گے جو”تھرو پراپر چینل“ بیگم صاحبہ تک پہنچائی جائے گی۔ اس کے لیے کمشنر آفس میں ایک رجسٹر کھولنے کی ہدایت کی گئی اور باقاعدہ وصولی کی رسیدیں جاری کرنے کا حکم دیا گیا۔ میاں صاحب ہر پہلی کو 50 روپے جمع کراتے اور رسید حاصل کرتے یہ رقم کمشنر آفس سے ڈپٹی کمشنر کو بھیجی جاتی وہاں بھی ایک رجسٹر ہوتا۔ ڈپٹی کمشنر آفس کا اپنا نظام تھا اس کے اہل کار یہ رقم اسسٹنٹ کمشنر کو دیتے جہاں سے ہوتی ہوئی یہ رقم تحصیل دار کے پاس آجاتی تحصیل دار اسے پٹواری کے سپرد کرتا اور پٹواری کو ہدایت کی جاتی کہ وصول کنندہ کو پیسے پکڑاتے وقت مقامی تھانے کو بھی اطلاع ہونی چاہیے تا کہ پٹواری اس میں خورد برد نہ کر سکے اس کام کے لیے احتیاطاً گاؤں کے نمبردار سے معاونت حاصل کرنا پڑتی تھی جس کے لیے نمبردار نے اپنی سہولت کاری کے لیے گاؤں کے چوکیدار کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں اس سارے کار سرمایہ میں ایک مہینہ لگ جاتا تھا خاتون خانہ نے وقت بچانے کے لیے پٹواری کو دو رپے بخشش کا وعدہ کیا جس پر تھانے دار نمبردار چوکیدار، تحصیل دار اور دیگر سٹیک ہولڈرز نے بھی اپنے اپنے چائے پانی کا مطالبہ کر دیا آہستہ آہستہ بیگم صاحبہ تک آتے آتے 50 روپے کی رقم آدھی رہ جاتی۔

بالآخر بیگم نے میاں سے کہا کہ اگر یہ پیسے آپ مجھے براہ راست دے دیا کریں تو ہم اس میں سے سرکاری مداخلت کا خاتمہ کر سکتے ہیں میاں صاحب مان گئے۔ ڈیل کے بعد بیگم نے کمشنر صاحب میں ایک اور عرضی جمع کرا دی کہ مجھے اس رقم کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا یہ سلسلہ بند کر دیا جائے۔ درخواست پر پہلے تو فیصلہ محفوظ کیا گیا پھر سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ میاں صاحب حسب معمول یہ پیسے ادا کرتے رہیں گے مگر بیگم کو چونکہ ضرورت نہیں ہے جبکہ دوسری طرف جنگ عظیم کی وجہ سے حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے لہٰذا یہ رقم اب سرکاری خزانے میں ہر ماہ باقاعدہ سے جمع کرائی جائے گی۔

اس مثال میں آپ کو بیوروکریسی کے نظام کار کی چھوٹی سی جھلک مل جاتی ہے یہ ایک صدی پہلے کا واقعہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہ نظام فرسودہ ہو چکا ہے یہ آج بھی اسی زور و شور سے جاری ہے۔ اس کی عملی مثال دیکھنا ہو تو آپ ملک میں کسانوں کو دی جانے والی نام نہاد کھاد سبسڈی کا پورا ڈھانچہ دیکھ لیں آپ مذکورہ بالا مثال کو بھول جائیں گے۔

پاکستان کو اس وقت فوڈ سکیورٹی کا سنگین ترین چیلنج در پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح ہمارا ملک گندم برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکل کر گندم باہر سے منگوانے والوں میں شامل ہو چکا ہے جو کہ ملک میں فوڈ انفلیشن یا کھانے پینے کی اشیاء میں ہونے والی مہنگائی کی سب سے بری وجہ بنا۔ اگر گندم پیدا کرنے والے کسان کو سرکاری سطح پر سپورٹ کیا جاتا تو قیمتی زرمبادلہ جو گندم پر خرچ ہو رہا ہے وہ بچ سکتا تھا جبکہ دوسری طرف مقامی گندم موجودہ ریٹ سے آدھی قیمت پر دستیاب ہو سکتی تھی۔

ہماری تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں یہ معاملہ بیورو کریسی کے حوالے کیا کہ پاکستان کو گندم میں خود کفالت کے لیے کھاد کی خریداری پر سبسڈی فراہم کی جائے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ سبسڈی کسان کو براہ راست اس کی فی ایکڑ زیر کاشت گندم کے حساب سے ادا کر دی جاتی مگر ہماری بیورو کریسی نے ایسا نظام وضع کرنے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کسان کو براہ راست سبسڈی دینے کے بجائے کھاد بنانے والی کمپنیوں کو سستی گیس فراہم کریں گے تا کہ وہ کھاد کی قیمت میں رعایت کر کے اپنے ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے سستی کھاد کسانوں کو دیں۔ یہاں سے اربوں ڈالر کی بلیک مارکیٹ کا آغاز ہوا اور فرٹیلائزر پلانٹ اور ڈسٹری بیوٹرز نے ضلعی انتظامیہ سے ملی بھگت کر کے کسان کو سبسڈی سے محروم رکھا اور اس کا سارا فائدہ بندر بانٹ اور چور بازاری کے ذریعے آپس میں بانٹ لیا۔ چھوٹے کسانوں کو آج بھی 3200 روپے والی یوریا کھاد کی 50 کلو کی بوری 5500 روپے میں ملتی ہے۔ سبسڈی کا فائدہ کھاد فیکٹریوں تقسیم کار ایجنسیوں مڈل مینوں اور بڑے بڑے زمینداروں کو ہو رہا ہے چھوٹے کسان قطاروں میں لگ کر کئی دن کی کوشش کے بعد 2بیگ حاصل کر پاتے ہیں۔ پتہ سب کو ہے مگر بولتا کوئی نہیں۔

موسم سرما میں ملک کی 22 ملین ایکڑ زیر کاشت زمینوں کے 50 فیصد پر گندم کاشت کی جاتی ہے جس میں کھاد کی ضرورت اپنے عروج پر ہوتی ہے مگر یہ سٹاک غائب کر کے مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے جس سے سبسڈی کا سارے کا سارا سٹرکچر ہی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ اس کی ساری ذمہ داری بیورو کریسی اور سیاسی قیادت پر ہے کیوں کاشت کار کو براہ راست سبسڈی نہیں دی جاتی۔ ایک ناقص اور احمقانہ نظام سے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے اس سال بھی حکومتی کھاتوں سے 30 بلین روپے کی سبسڈی جاری ہو چکی ہے مگر جس کے لیے جاری ہوئی ہے اسے ایک پیسہ بھی نہیں ملا اور اس کے نام پر طفیلی کرداروں نے وہ سارا پیسہ ہڑپ کر لیا مگر ان سرکاری اداروں، وزارتوں، فیکٹریوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے کھاتے اور دستاویزات چیک کریں تو 30 ارب کسانوں کو بانٹے جا چکے ہیں۔
دامن پہ کوئی بوند نہ خنجر پر کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

اگر حکومت فرٹیلائزر پلانٹ کو دی جانے والی گیس سبسڈی ختم کر کے کسانوں کو براہ راست فی ایکڑ 5000 روپے سبسڈی دے اور چھوٹے کسان کو 10ایکڑ سبسڈی کی حد مقرر کر دے تو اسے 50 ہزار روپیہ ملے گا جس کا یقینی فائدہ یہ ہے گا کہ ہر سال ہم جو گندم دگنی قیمت پر باہر سے درآمد کرتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہو گی اور اس سبسڈی کی آڑ میں جو بادشاہت کھاد فیکٹریوں نے قائم کر رکھی ہے وہ بھی معزول ہو جائے گی۔

حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملکی معیشت مستحکم بنانے کے لیے زراعت کے شعبے کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی بنانے کا جو عزم ظاہر کیا ہے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ کھاد اور زرعی ادویات کی سستے داموں فراہمی یقینی بنائی جائے اگر اس پر ایک فول پروف طریقہ وضع کر دیا جائے تو آرمی کو ہزاروں ایکڑ فارم لینڈ ایکوائر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ بس اتنا کر دیں کہ جن آہنی ہاتھوں نے کسان کی گردن پر شکنجہ کس رکھا ہے کسان کو اس ظالمانہ گرفت سے آزاد کرا دیں۔

تبصرے بند ہیں.