کیئر ٹیکر سیٹ اپ کے سربراہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ ایک منفرد ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ 133 کے سکور پر ہیں اور کریز پر موجود ہیں، کسی بھی وجہ سے ان کے جلد آؤٹ ہونے کا امکان نہیں۔ انہوں نے ایک ہک شارٹ کھیلا لیکن نگران وزیر اعظم کی نگرانی کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہوتا لہٰذا کسی نے اسے کیچ کرنے کی کوشش نہیں کی، اگر کیچ ہو بھی جاتا تو ایمپائر نے اُسے نو بال قرار دے کر کھیل جاری رکھنے کا اشارہ دے دینا تھا۔ انکی جگہ کوئی منتخب وزیر اعظم ہوتا تو ملک میں اسوقت کہرام کی کیفیت ہوتی لوگ ایک دوسرے کو کتا کتا، کافر کافر یا اسرائیل کا نیا ایجنٹ نا منظور نامنظور کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نظر آتے مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملک گیر ہڑتال یا پہیہ جام کی کال آ جاتی جس میں حصہ ڈالنے کیلئے طلبا نعرے لگاتے سکول کالجز اور یونیورسٹیاں بند کرانے نکل پڑتے کیونکہ عرصہ دراز بعد انہیں پرفارمنس کا موقع مل رہا تھا طلبا پر عرصہ دراز سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد رہی ہے، پابندی اٹھانے کی ضرورت شاید اس لیے پیش آئی کہ طلبا کی قابلیت و کارکردگی ویسی ہی رہی جیسی پابندیوں سے ہوا کرتی تھی لہٰذا سوچا گیا ہو گا کہ انہیں بھی ایک مرتبہ پھر قومی دھارے میں لے آیا جائے تاکہ تعلیمی اداروں کے اندر اگر وہ کوئی قابلیت نہیں دکھا سکے تو شاید سڑکوں پر کوئی اہم کارنامہ دکھا سکیں۔
نگران وزیر اعظم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسرائیل کے حوالے سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولی موقف پر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ قائد اعظم کوئی نبی یا پیغمبر نہیں تھے کہ جو انہوں نے اسوقت کہا اسکے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے۔ انکے بیان پر سخت عوامی ردعمل سامنے آنے پر انہوں نے ایک اور بیان جاری کیا ہے، انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ قائد اعظم کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتے، گویا اپنی دانست میں وہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے قائد اعظم کی توہین نہیں کی۔ نگران وزیر اعظم نے عوام کے دلوں سے اٹھتی ہوئی ٹیسوں کو کم کرنے کیلئے اسرائیل کو ناجائز بچہ اور اسرائیلی وزیر اعظم کو بھیڑیا کہا ہے۔ وہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم کو صرف بھیڑیا کہنے کے بجائے خونخوار بھیڑیا بھی کہہ دیتے تو اس سے فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکنے والے دلوں کا درد کم نہ ہوتا۔ انہوں نے جو کہنا تھا کہہ گئے۔ داغ اتنی جلدی تو نہیں دھلتے۔ ٹی وی کے اشتہاروں میں داغ دھونے کے دعووں میں ناکامی کے بعد اب نیا پینترا بدلا گیا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ یہی حال سرکاری ڈرائی کلین مشینوں کا ہے وہ بھی داغ دھونے کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد داغ داروں کو معصوم ثابت کرنے کے مشن پر ہیں لیکن قوم داغوں کو اچھا سمجھنے کیلئے تیار نہیں، وہ داغوں اور داغداروں سے نفرت کرتی ہے اسکا اظہار پولنگ ڈے پر ضرور ہو گا، نصف صدی قبل جب ہر شہر کے ہر بازار میں ڈرائی کلین مشینیں نہیں تھیں تو دھوبی گھروں سے آ کر کپڑے لے جاتے تھے، پھر پتھروں پر پٹخ پٹخ کر
ان کے داغ نکالتے تھے ان کی اس کوشش میں کپڑوں کی عمر آدھی رہ جاتی تھی بعض کپڑے پھٹے اور ادھڑے گھر پہنچتے تھے انکے مالک انکی صورت دیکھ کر انہیں پہچاننے سے انکار کر دیتے تھے۔ پتھروں پر پٹخ پٹخ کر داغ نکالنے کی ٹیکنالوجی پر آج پھر عمل ہوتا نظر آتا ہے۔ دریدہ جسموں، دریدہ لباسوں کے نوحے آج کوئی نہیں لکھے گا۔ یہ پچاس برس بعد لکھے جائیں گے۔ مورخوں کا کردار یہی رہا ہے، بروقت سچ بولنے کا رواج عرصہ دراز قبل ختم ہو چکا اب تو بعد از وقت سچ بولنے کا فیشن ہے جس سے سچ کی صورت بھی مسخ ہو جاتی ہے۔ سپریم کورٹ سے سائفر کیس میں ریلیف کی امید باندھی گئی ہے، اڈیالہ جیل میں یہ ٹرائل جاری ہے اس میں 25 گواہوں کے بیانات مکمل ہو چکے ہیں۔ وہ جو کہتے تھے بلے سے پھینٹی لگا کر مخالفین کے بھیجے نرم کر دیں گے فی الحال بلا انکے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بلا تو شاید واپس نہ ملے صرف اس کا ڈنڈا ہاتھ پکڑایا جا سکتا ہے۔ سیاسی صور تحال جو شکل اختیار کر چکی ہے اس میں بلے یا ڈنڈے کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، کوئی انتخابی نشان ملے نہ ملے اب اس سے کوئی فرق نہ پڑے گا۔ پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے کیلئے جانے والے کے ماتھے پر تحریر نہ ہو گا کہ ووٹر بلے والا ہے یا ڈنڈے والا، وہ ووٹ اپنی مرضی سے دے گا، آگے اس کی ہماری اور ہمارے ملک اور انکے نظام کی قسمت کہ وہ ڈالا گیا ووٹ کس کے ڈبے سے برآمد ہوتا ہے کس گنتی میں شمار ہوتا ہے کسے مزید داغدار کرتا ہے یا کس کے داغ دھوتا ہے۔
جناب اعظم سواتی پتھروں پر چل کر کہکشاں تک نہیں گئے، انہوں نے پتھروں پر سر پٹخنے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے قائد جناب نواز شریف کے مقابل مانسہرہ سے الیکشن لڑیں گے۔ انہوں نے وہاں کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔ اس حلقے سے بنیادی طور پر نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے الیکشن لڑنا تھا لیکن بوجوہ وہ اس حلقے سے الیکشن نہیں لڑ رہے۔ انہوں نے اپنی جگہ اپنے سسر کو پیش کی ہے البتہ وہ اس آبائی علاقے میں الیکشن مہم میں پیش پیش نظر آئینگے، تحریک انصاف کی طرف سے ابھی اعظم سواتی کو مانسہرہ سے ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد 9 مئی سے بہت پہلے مریم نواز کے مقابل الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں۔ اس دل خراش واقعے میں وہ ایک ہجوم کو جناح ہاؤس لے کر آئیں وہ اسی مقدمے میں جیل میں ہیں اور پُرامید ہیں کہ وہ مریم نواز کو شکست دے دیں گی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اس زمانے میں دو مرتبہ الیکشن میں بُری طرح ہاری تھیں جب ہر طرف سے ان کی جماعت کو سہولتیں حاصل تھیں بعد ازاں انہیں مخصوص نشستوں پر جگہ دے کر وزیر بنایا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ اب جیل جانے پر انہیں ہمدردی کا ووٹ جتوا دے گا۔ یہی سوچ کچھ اور خواتین کی بھی ہے لیکن اگر ان کے مقدمات کا فیصلہ پولنگ سے قبل آ گیا تو سب تدبیریں الٹی ہو جائینگی۔ درجن بھر سیاسی مفروروں کے شناختی کارڈ بلاک ہو چکے، وہ کاغذات نامزدگی جمع نہ کرا سکیں گے انکی جگہ آزاد حیثیت میں اگر کھمبے کھڑے کیے جاتے ہیں تو وہ کتنے ووٹ لے سکیں گے۔ 2024 کے انتخابات کی سب سے بڑی پہیلی یہی ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے الیکشن جس تاریخ کو بھی ہوں نتائج غیر متوقع ہونگے۔ سویپ کا خواب دیکھنے والے اور دو تہائی اکثریت کیلئے پُرامید ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئینگے ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔ کچھ لوگ تو ہاتھ لگا لگا کر دیکھتے نظر آئیں گے۔ انوار الحق کاکڑ ڈبل سینچری بنانے کے موڈ میں ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.