ہر بات کو الجھانا شاید ہمارا قومی وتیرہ بن چکا ہے ۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ ہر کام کو مشکل بنا کر کرنا ہے ۔ کوئی کام سیدھا ہو بھی رہا ہو گا تو اس میں آخری حد تک کوشش کرنی ہے کہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کر دیں ۔ معاملات کو متنازع بنانے کے ہنر میں دنیا بھر میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔ اندازہ کریں کہ گذشتہ سال عدم اعتماد کی تحریک کے بعد دو مرتبہ ضمنی انتخابات ہوئے ۔ پہلی مرتبہ جب پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پر انتخابات ہوئے تو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز تھے اور مخالف وزیر اعلیٰ ہو تو ضمنی انتخابات میں ون ٹو کا فور کرنا کون سا مشکل کام ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف بیس میں سے پندرہ نشستیں جیت جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی چیف الیکشن کمیشن جانبدار ٹھہرے اور تحریک انصاف ان کے خلاف ڈٹ کر بیان دیتی رہی ۔ اس کے بعد پورے ملک میں قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں اور اس وقت پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے اپنے وزیر اعلیٰ تھے۔ تحریک انصاف آٹھ میں سے چھ قومی اسمبلی کی نشستیں جیت جاتی ہے لیکن پھر بھی چیف الیکشن کمیشن نشانہ پر تھے ۔ سوال یہ ہے کہ بیس میں سے پندرہ اور آٹھ میں سے چھ نشستیں جیت لی جاتی ہیں یعنی دونوں بار تحریک انصاف سادہ اکثریت نہیں دو تہائی نہیں بلکہ تین چوتھائی نشستیں جیت جاتی ہے تو اس کے بعد بھی اگر چیف الیکشن کمیشن برے تھے تو پھر تو ایک ہی حل تھا کہ
پنج ست مرن گوانڈھناں
رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں
تے وچ مرزا یار پھرے
عمران خان کو فلی لوڈڈ اختیارات آئین میں من مانی ترامیم کی اجازت کے ساتھ صدر بنا دیا جاتا ۔ وزارت عظمیٰ ختم کر دی جاتی ۔ آرمی چیف کا اضافی چارج خان صاحب کے پاس ہوتا اور چیف جسٹس کی سیٹ پر ان کی تصویر آویزاں کر دی جاتی تو تب کہیں جا کر خان صاحب کی تسلی ہوتی۔
ہمیں تحریک انصاف سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے ۔ جس بات میں وہ حق پر ہوں گے ہم یقینا اس کی حمایت کریں گے ۔ تحریک انصاف سمیت جو جماعتیں لیول پلئنگ فیلڈ مانگ رہی ہیں ان کی بات سنی جانی چاہئے ۔ تحریک انصاف کے علاوہ اگر دیگر جماعتوں کو جلسہ کرنے کی اجازت ہے اور انھیں جس سطح اور جس طرح اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے اسی طرح کی آزادی تحریک انصاف کو بھی ملنے چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یقینا یہ بات شفاف اور منصفانہ الیکشن پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہو گی۔دوسرا تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی کے حوالے سے اس قدر تاخیر سے ایک محفوظ فیصلے کوسنانے کی کوئی تک نہیں تھی کہ جس کے بعد اس کے پاس وقت ہی نہ بچے ۔تحریک انصاف کے حوالے سے جو غیر یقینی کی کیفیت رکھی گئی اور اس کے انتخابی نشان اور دیگر امور کے متعلق یہ نہیں ہونی چاہئے تھی ۔موجودہ صورت حال پر بات کریں تو تحریک انصاف کے بعد ملک بھر سے بار ایسوسی ایشنز نے بھی چیف الیکشن کمیشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات کو میڈیا میں اچھالا بھی جا رہا ہے ۔ایسا کیوں کیا جا رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک جانب جمہوریت کا نام بھی لینا اور بر وقت انتخابات کا واویلا بھی کرنا لیکن جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تو اب ہر وہ کام کیا جا رہا ہے کہ جو انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بناتا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز نے جن حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھائے ان سب کی وضاحت الیکشن کمیشن کے آفس سے آنے کے بعد وکلا برادری کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا وہ دور ہو جانے چاہئیں ۔ اس وقت جو اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں وہ اگر درست بھی ہیں تو ان کی ٹائمنگ درست نہیں اور ان تمام اعتراضات ، خدشات اور تحفظات جو بھی نام دیں ان کا مقصد فقط انتخابات کا التوا اور ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔
دوسرا نگران حکومت میں سیاسی جماعتوں سے جن کی وابستگی تھی انھیں کسی کے اعتراض سے پہلے ہی فارغ کیا جانا چاہئے تھا ۔وکلاء برادری سے جولوگ چیف الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے اور اسے کسی انتظامی حکم کے ذریعے نہیں ہٹایا جا سکتا بلکہ آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے اور پھر موجودہ چیف الیکشن کمیشن کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود عمران خان نے 2020میں اس عہدے پر فائز کیا تھا لیکن بعد میں جب کچھ صحافیوں نے اس کے متعلق پوچھا تو کہا کہ انھوں نے کہا کہ یہ کام جنرل باجوہ کے کہنے پر کیا تھا ۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا تھا کہ جو حکومت میں آنے سے پہلے کہتا تھا کہ میں مستعفی ہو جائوں گا لیکن کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا ۔ایک اور بات بڑی دلچسپ ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں جو اپنی سیاسی مقبولیت پر بڑا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھیں اس قدر کہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی لیکن اب وہی جماعتیں مختلف ہتھکنڈوں سے الیکشن ملتوی کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں لیکن اس کے بر عکس وہ چیف الیکشن کمیشن کہ جن پر آپ سو اعتراض کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ بات حقیقت نہیں کہ جب لاہور ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کی وجہ سے الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑتا نظر آیا تو کوئی اور نہیں بلکہ یہ صرف چیف الیکشن کمیشن ہی تھے کہ جو پٹیشن لے کر سپریم کورٹ گئے اور پھر قاضی صاحب نے اپنی پتھر کی آئینی لکیر کا اس طرح پہرہ دیا اور اسے تحفظ دیا کہ الیکشن کے متعلق ابہام ختم ہو گیا تو الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد اگر کسی کا کوئی کردار نظر آ رہا ہے تو وہ چیف الیکشن کمیشن کا ہے اس تمام صورت حال میں جیسا کہ عرض کیا کہ کچھ درست اور زیادہ تر اعتراض برائے اعتراض ہیں لیکن اب وقت تو درست اعتراض کا بھی نہیں ہے اور غلط تو ظاہر ہے کہ غلط ہی ہے اس لئے کہ اب اس قسم کا کوئی بھی کام الیکشن ملتوی کرنے اور ملک میں انتشار کا سبب بنے گا۔
تبصرے بند ہیں.