جماعت اسلامی اور اسٹیبلشمنٹ

194

جماعت اسلامی پاکستان نے لاہور کی سرزمین پر آنکھ کھولی، اِس وقت تاج برطانیہ عالمی استعمار کی ہند میں حکومت تھی، اس ماحول میں اسلامی انقلاب کی بات کرنا اور پولیٹیکل اسلام کا خاکہ پیش کرنا دل گردے کا کام تھا،سید مودودی نے اس نظریہ کی ترویج کے لئے ہر فورم پر آواز آٹھائی، آئین کی تدوین میں قرارداد مقاصد کی صورت میں اسلامی ا صطلا حات شامل کروائیں، بانی پاکستان کی وفات کے بعد اسلام کے نفاذ کے مطالبہ پر سید مودودی اور انکے ساتھیوں کو 1948 میں گرفتار کیا گیا۔

1953 میں قادیانی مسئلہ پر فوجی عدالت نے سید مودودی کو سزائے موت سنا دی، وہ ابھی جیل میں تھے کہ گورنر جنرل نے پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی، ملک میں سناٹا تھا، پہلا رد عمل میاں طفیل محمد قیم جماعت اسلامی کی طرف سے آیا اس حکم کو عدالت میں چیلنج کرنے کی صدا دی، المیہ ان کے بیان کو کسی اخبار نے شائع نہ کیا، میاں طفیل محمد اچھرہ کے دردل رکھنے والے ٹھیکیدار سے ملے اور کہا اگر اب غلام محمد کے حکم کو چیلنج نہ کیا گیا تو آمریت مستقلاً مسلط ہو جائے گی، اس سے پانچ ہزار لے کر کراچی گئے جب سونا 58 روپئے تولہ تھا، مولوی تمیز الدین کو دیئے جو اسمبلی کے سپیکر اور مسلم لیگ کے ممبر تھے، میاں طفیل محمد مرحوم نے انھیں قائل کیا ،سرکاری رہائش گاہ سے برقعہ پہن کر رٹ دائر کرنے کراچی ہائی کورٹ پہنچے ، عدلیہ نے گورنر جنرل کا حکم کالعدم قرار دیا ۔فیڈرل گورنمنٹ کی اپیل کے خلاف رٹ کے پیسہ دوبارہ اسی ٹھیکیدار نے جماعت کو دیئے، مگرسپیکر اسمبلی کیس ہار گئے۔

عہد ایوب میں جماعت اسلامی واحد اپوزیشن پارٹی تھی، سرکار کے حکم پر بھاٹی گیٹ پر سالانہ اجتماع ارکان میں جلسہ میں گولی چلائی اور پہلے کارکن خد ابخش شہید ہوگئے ،سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کیا، تمام سیاسی جماعتیں خلاف قانون قرار دیں، جماعت کی قیادت گرفتار کرلی گئی،جماعت اسلامی عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں بحال ہوئی، 25 اکتوبر 1964 کو سید مودودی نے جلسہ عام میں ایوب خاں کوغیر آئینی اقدامات کا مجرم قرار دے کر صدارت کے لئے نااہل قرار دیا، اور جیل ہی سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کردیا، یہ وہ زمانہ تھا جب ”قائد عوام” ڈکٹیٹر کو ”ڈیڈی“ کہا کرتے، آج کے سیاسی الیکٹیبل کے ابائو اجداد بھی ایوب کے حمایتی تھے۔

یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تو سید مودودی نے مشورہ دیا کہ 1956 کا دستور بحال کرکے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائیں، مگر جنرل نے تجویز مسترد کر دی، مشرقی پاکستان میں 1970کے انتخابات میں غنڈہ گردی ہوئی، سید مودودی عوامی خطاب کرنے پلٹن گرائونڈ ڈھاکہ نہ پہنچ سکے۔ مغربی پاکستان میں گوجرانوالہ میں جماعت اسلامی کے کارکن شہید ہوئے۔

جب مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، مجیب سے جنرل یحییٰ کی ہدایت پر رنگین شام میں بھٹو مذاکرات کر رہے تھے، ”عمر رواں“ کے مصنف ڈاکٹر فرید پراچہ رقم کرتے ہیں، معروف خاتون جنرل رانی دلائل واقعات اور شواہدکی بناء پر بھٹو کو سانحہ مشرقی پاکستان کا بڑا کردار سمجھتی ہیں۔

1956 سے 1975 تک کا عرصہ سوشلسٹ انقلاب کے لئے معروف تھا، بھاشانی اور زیڈ اے بھٹو اس کے حق میں نعرے بلند کرتے، جماعت اسلامی اس محاذ پر بھی قومی نظریاتی ہم آہنگی کے ساتھ کھڑی تھی۔ امیر جماعت میاں طفیل محمد پر 73 میں بھٹو مخالف تقریر کے جرم میں بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا اور جیل میں بد سلوکی اور تشدد کیا۔

بھٹو کی فسطائیت جب حد سے بڑھ گئی تو قومی اتحاد میدان میں آیا، بلامقابلہ منتخب ہونے کے خبط میں بھٹو نے لاڑکانہ سے اپنے مد مقابل جماعت کے جان محمد عباسی کو اغوا کروایا۔ حیرت ہے کہ پی این اے سے مذاکرات میں بھٹو کے ساتھ کور کمانڈرز بھی شریک ہوئے۔ مارشل لا سے نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے، عوامی نیشنل پارٹی نے پہلے احتساب اور پھر انتخاب کی تحریک اُٹھائی، ضیاء کی کابینہ میں پی این اے کی جماعتوں کو نمائندگی مل گئی، جماعت اسلامی کے تین وزراء نے ۹ ماہ بعد ضیاء الحق سے اختلاف کی بناء پر وزارتیں چھوڑ دیں، ڈاکٹر پراچہ لکھتے ہیں کہ اُس دور میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلباء کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔

1988 میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا، جماعت اسلامی کے بعض امیدواران نے کاغذات نامزدگی جمع کراو دیئے، دیگر سیاسی جماعتوں کی دعوت پر آئی جے آئی کا حصہ بنی۔ 2002 میں امریکہ ایک بار پھر افغانستان پر چڑھ دوڑا، میاں برادران لندن میں مقیم تھے، پی پی پی کی سیاست نہ ہونے کے برابر تھی، پشتونوں میں امریکہ مخالف جذبات عروج پر تھے، اے این پی نیٹو کے ساتھ تھی، مذہبی جماعتوں نے ان حالات کے تناظر میں سیاسی اتحاد ایم ایم اے بنایا، جماعت اسلامی اس کا حصہ تھی،مشرف کی کشمیر پالیسی کے خلاف سب سے زیادہ توانا آواز جماعت اسلامی کی تھی، باوردی صدر ”چناب فارمولا“ پر عمل درآمد سے باز رہے۔

مشرف مخالف عدلیہ تحریک میں جماعت اسلامی کا مرکزی کردار تھا۔ اصل گلہ تو ان سے بنتا ہے جنہوں نے ریڈ کارپٹ سے ڈکٹیٹر کو باعزت رخصت کیا، باوردی دور میں این آر او سے بڑی جماعتوں کے قائدین مستفید ہوئے اور خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے واپس آئے، ان سب کے ہاتھ”اسٹیبلیشمنٹ“ کے تعاون سے رنگے ہیں۔ جمہوریت پسند جماعت نے جس طرح چیئر مین سینٹ منتخب کروایا یہ اب کوئی سیکرٹ نہیں رہا۔ سپہ سالار کو ایکسٹیشن دینے کے ”سیاسی گناہ“ میں جماعت اسلامی کے علاوہ سب شریک تھے۔

کپتان کا سیاسی سفر بھی جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت سے شروع ہوا،وہ کس طرح مسند اقتدار پر بٹھائے گے یہ بات اب راز نہیں ، البتہ یہ ملکہ اسے حاصل ہے کہ میڈیا کی وساطت سے اپنے ”محسنوں“ کے احسانات کا تذکرہ اور دم اُس وقت تک بھر تے رہے، جب تلک ”دست شفقت“ ان کے سر پر رہا، عدم اعتماد کے بعد ملازمت میں مزید توسیع کی شرط پر سپہ سالار سے اپنی حکومت کی بحالی کی بھیک مانگتے رہے، مایوسی نے ان سے وہ جرم سرزد کروایا جس کی توقع کسی سیاسی قیادت سے عبث ہے۔

جماعت اسلامی کو البتہ دیگر جماعتوں میں یہ امتیاز ضرور حاصل ہے، کہ اس کو کبھی بھی خفیہ والوں کے ہاتھوں فائلیں کھلنے کی خفت نہیں اُٹھانا پڑتی ہے، دکھ تو اِس بات کا ہے جو اس مرحلہ سے گزر تے اور ”ڈیل“ کرتے ہیں، وہی جماعت اسلامی کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.