برس ہا برس تک ایک ہی چھتری پر بیٹھنے والے اور اُسی چھت پر دانہ چُگنے والے سیاسی کبوتروں نے چھتیں اور چھتریاں بدل لی ہیں، کچھ ابھی تک محو پرواز ہیں، وہ بہ زعم خود شاہین بنے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ پرواز سے تھک کر نہیں گریں گے لیکن بادِ مخالف جب چاہے انہیں جہاں چاہے لے جائے، اوقات بس اتنی ہے۔
2018ء کے انتخابات سے قبل چلو چلو پی ٹی آئی چلو دیکھنے میں آیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سرجری کے بعد تیسری قوت معرض وجود میں آئی۔ اب خود اس کا ”سیزیرین” ہو چکا ہے اور ایک نئی جماعت نہیں دو نے جنم لیا ہے۔ ایک کی ولدیت کے خانے میں جہانگیر ترین جبکہ دوسری طرف پرویز خٹک کا نام لکھا ہے۔ کبھی ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں، دو سے ہوئیں تین، اب تین سے پانچ ہو چکی ہیں۔ اس الیکشن میں کِس کِس کا تیا پانچا ہوتا ہے، جلد واضح ہو جائے گا۔
تین سے پانچ ایکٹ کے کھیل میں اب الیکٹ ایبلز کی کمی کا سامنا ہے، 345 کا ہائوس پورا کرنے کیلئے پانچ سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی کیلئے 1725 امیدوار درکار ہیں۔ کہنے کو تو سترہ ہزار امیدوار اسمبلی میں آنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن زیادہ ایسے ہیں جنہیں شاید اُن کے اہل خانہ بھی ووٹ نہ دیں۔ پس جیت کو یقینی بنانے والوں کی تلاش ہر سیاسی جماعت کو ہے۔ وہ جو کہتے تھے ہماری نفری پوری ہے، انہوں نے بھی صرف پہلی قسط جاری کی ہے اور باقی آئندہ پر ڈالا ہے یا ٹالا ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک ہی خاندان کے سب سے زیادہ افراد کی طرف سے الیکشن لڑنے کا اعزاز مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آ رہا ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف بھائیاں دی جوڑی کے علاوہ، مریم صفدر، کیپٹن صفدر، حمزہ شہباز، میاں جاوید لطیف، عابد شیر علی، مسلم لیگ (ن) کا اٹوٹ انگ ہیں۔ جنید صفدر کی ٹکٹ کا اعلان ہو جاتا تو اسے کم عمر ترین امیدوار برائے قومی اسمبلی کا اعزاز حاصل ہو سکتا تھا۔ خاندان کی بی ٹیم کے امیدواران کے نام بھی سامنے آ چکے ہیں۔ ان میں قابلِ ذکر خواجہ آصف، مسرت خواجہ آصف، خرم دستگیر، عطاء اللہ تارڑ، مریم اورنگزیب، طاہرہ اورنگزیب، مائزہ حمید، بیگم سرتاج عزیز، شائستہ پرویز ملک، علی پرویز ملک، تہمینہ دولتانہ ہیں۔
ان اٹھارہ شخصیات کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ کل کلاں مسلم لیگ (ن) پر پھر کڑا وقت آیا تو یہ سب مسلم لیگ کا اثاثہ ثابت ہوں گے۔ ایک سو سات افراد کے ناموں میں اور بھی کئی نام ہیں جنہوں نے پارٹی کے ساتھ وفا کی ہے۔ قوم کی تقدیر بدلنے والی ٹیم یہی ہے۔ منصوبے کا اعلان بعد از انتخابات ہوگا۔ ہائوس آف ماڈل ٹائون جو اب ہائوس آف رائے ونڈ ہے یہاں سے سات افراد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ کئی اور گھرانوں میں بھی دو دو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ جاری بر 20 دسمبر کے ایک قومی روزنامے کے صفحہ آخر پر ایک اشتہار شائع ہوا ہے۔ یہ اشتہار ایک اہم آئینی ادارے کی طرف سے شائع کیا گیا ہے جس میں ایک صاحب کی نااہلی اور مدت نااہلی کے حوالے سے اس فیصلے کے آئندہ انتخابات میں اثر پر غور کیلئے ان صاحب کو اپنا جامع جواب جمع کرانے کیلئے اطلاع دی گئی ہے۔ مذکورہ اپیلوں اور دیگر مقدمات کو ایک سات رکنی بنچ 2 جنوری 2024ء کو سماعت کرے گا۔ پس امید کی جا سکتی ہے کہ ایسے ہی ایک اور معاملے میں اب جناب نواز شریف کی اہلیت کا معاملہ بھی نپٹ جائے گا اور وہ انتخاب لڑنے کے اہل قرار پائیں گے۔
(ن) لیگ کے بعض اکابرین دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ سیاسی بھونچال کا رُخ اُن کے حق میں ہے۔ یہ بھونچال اُس کے مخالفین کو خَس و خاشاک کی طرح کہیں اور اُڑا لے جائے گا، اسی خیال کے تحت دیگر تمام سیاسی جماعتیں منتظر تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے اپنے امیدواروں کے نام فائنل کرنے کے بعد وہ اپنے امیدواروں کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گی۔ اب توقع کی جا سکتی ہے کہ دیگر بڑی سیاسی جماعتیں اگر اپنے امیدواروں کی مکمل لسٹ منظرعام پر نہیں لاتیں تو کم از کم پہلی قسط میں شامل ناموں کا جلد اعلان کر دیں گی۔
آصف علی زرداری فیملی میں ان کے علاوہ بلاول بھٹو، آصفہ، فریال تالپور کا الیکشن لڑنا یقینی ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے بعض سیاسی شخصیات کیلئے اپنے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے ہیں بلکہ ان پر قفل چڑھا کر چابی سمندر میں پھینک دی ہے۔ یہ فیصلہ شیخ رشید، چوہدری نثار اور پرویز الٰہی فیملی کے بارے میں ہے۔ اوّل الذکر دو شخصیات کے حوالے سے ذرائع بتاتے ہیں کہ (ن) لیگ میں واپسی کیلئے مختلف سطح پر بات شروع ہوئی لیکن جناب نواز شریف نے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ (ن) لیگ کے اندر ان دونوں شخصیات کیلئے محبت کے جذبات نہیں پائے جاتے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ماڈل ٹائون اور رائے ونڈ میں گھومنے پھرنے والی تمام بلیوں کی دُمیں باندھ دی جائیں۔ مبادا وہ ان دو شخصیات کا نام آنے پر اپنی دُمیں لہرا کر ”خوش آمدید“ کا تاثر نہ دے بیٹھیں۔
لطیف کھوسہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا۔ آصف علی زرداری صاحب نے تو عرصہ دراز قبل ان سے منہ موڑ لیا تھا لیکن سیاسی وضع داری کے تقاضے نبھاتے رہے اب کھوسہ صاحب نے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر لیا ہے جو بظاہر روشن نظر نہیں آتا۔
اعتزاز احسن تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں تاایں دم انہوں نے کسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا تاہم ان کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ گمان ہے وہ اہم مقدمات کے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
(ن) لیگ نے جن پرانے ساتھیوں کیلئے اپنے دروازے بند کئے ہیں، پیپلزپارٹی کے دروازے اُن کے لئے کھلے ہیں۔ بعض سیاسی شخصیات نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے لئے تین سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر رکھا ہے، انہیں ہر طرف سے جواب ہوا تو پھر وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔
پنجاب میں ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر پکڑ دھکڑ، مقدمات، جرمانوں پر زور ہے، کوئی بھی شخص اپنی ذاتی کمائی سے موٹرسائیکل یا گاڑی خریدتا ہے، ڈرائیونگ کی صلاحیت نہ ہونے پر یا قانون سے نابلند ہونے پر وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ اپنی اور کسی دوسرے کی جان کا خطرہ بن سکتا ہے لہٰذا ڈرائیونگ لائسنس ضروری ہے۔ جمہوریت کا حسن ملاحظہ فرمایئے۔ وزیر، مشیر، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بننے کے لئے کسی ٹریننگ یا لائسنس کی ضرورت نہیں، کسی کو بھی بہت جدوجہد سے حاصل کیا گیا ملک تھمایا جا سکتا ہے، وہ اپنی ناتجربہ کاری سے اسے کسی گہری کھائی میں گرا دے، اسے پوچھنے والا کوئی ہے نا اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، قوم کو ستر ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا تازہ کیس مبارک ہو۔ نو کروڑ جرمانے کے بعد کیس ٹھپ۔ پورے ملک میں الیکشن کا خرچ -42 ارب روپے ہے۔
تبصرے بند ہیں.