سنٹرل جیل راولپنڈی یا اڈیالہ جیل راولپنڈی۔۔۔!

98

راولپنڈی کے جانب جنوب مغرب اڈیالہ روڈ پر تقریباً بارہ تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر حکومت پنجاب کے تحت قائم دا ہگل زرعی تربیت گاہ کے بالمقابل سڑک کی دوسری جانب اڈیالہ جیل راولپنڈی کے سامنے سے بلا شبہ مجھے سیکڑوں بار گزرنے کا اتفاق ہوا ہو گا کہ یہ جیل میرے گاؤں آنے جانے کے راستے میں پڑتی ہے۔ اس طرح جیل کا محلِ وقوع، اس کی عمارت کے نقش و نگار اور جزئیات اور باہر سڑک کے ارد گرد کے مناظر میرے لیے کوئی انجانے نہیں ہیں۔ جیل کی دو منزلہ ڈیوڑھی اور اس پر لہراتے قومی اور محکمہ جیل خانہ جات کے پرچم دور سے نظر آتے ہیں تو قیدیوں اور حوالاتیوں کو عدالتوں میں لے جانے اور واپس لانے والی قیدیوں کیلئے مخصوص گاڑیاں بھی اِدھر اُدھر سڑک کے کنارے پر کھڑی نظر آ جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ پولیس سے تعلق رکھنے والا ان کا عملہ، ڈرائیور حضرات اور سنتری وغیرہ بھی قریب ہی سامنے کے ہوٹلوں میں گپیں لگاتے یا چائے وغیرہ پیتے نظر آ جاتے ہیں۔ یہ مناظر عموماً دن کے وقت کے ہوتے ہیں۔ اتوار کو یا چھٹی سے ہٹ کر باقی دنوں میں یہاں سے گزریں تو یہاں لوگوں کے کافی جمگھٹے دکھائی دیتے
ہیں۔ جیل کے بالمقابل سڑک کے کنارے پر اور پارکنگ میں جہاں کافی گاڑیاں نظر آتی ہیں وہاں کافی لوگ بھی اِدھر اُدھر چلتے پھرتے یا قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ جیل میں بند اپنے عزیزوں کی ملاقات کے لیے آئے ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سامان کے شاپرز، گٹھڑیاں اور پوٹلیاں اٹھا رکھی ہوتی ہیں۔ ان میں بڑی عمر کی عورتوں سمیت جوان عورتیں وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ اُن کے بچے بھی ہوتے ہیں۔ چھُٹی یا اتوار سے ہٹ کر ہفتے کے باقی دنوں میں شام چھ سات بجے کے لگ بھگ جیل والی سائیڈ پر سڑک کے کنارے مختلف طرح کی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوتی ہے۔ ان گاڑیوں میں وہ لوگ آئے ہوتے ہیں جنہوں نے اس دن جیل سے ضمانت پر یا سزا کی معطلی یا سزا کے پورا ہونے پر رہا ہونے والے اپنے عزیزو اقارب کو ساتھ لے کر جانا ہوتا ہے۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی کے سامنے کے یہ مناظر ادھر سے گزرنے والے ہر روز ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ تاہم ان دنوں ایک اور منظر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ
جیل کے گیٹ نمبر 5 پر جو اڈیالہ پولیس چوکی سے ملحق ہے اس کے باہر سڑک پر نمایاں جگہ پر ایک بورڈ آویزاں کر دیا گیا ہے۔ جس کے ادھر پنڈی کی طرف سے جانے والوں کے سامنے والی سائیڈ پر اردو جلی حروف میں ”سنٹرل جیل راولپنڈی“ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں تو پچھلی سائیڈ پر انگریزی میں ”CENTRAL JAIL RAWALPINDI“ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ راولپنڈی اڈیالہ جیل کے باہر سنٹرل جیل راولپنڈی کے الفاظ والا یہ نیا بورڈ لگائے جانے میں کیا مصلحت ہے؟ اس بارے واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تا ہم یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کاتعلق جیل میں بند تحریکِ انصاف کے قائد جناب عمران خاں اور وائس چیئر مین جناب شام محمود قریشی کے خلاف قائم سائفر کیس کی جیل کے اندر خصوصی عدالت میں سماعت سے ہو سکتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں اسلام آباد کی دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین کے سامنے سائفر کیس کی سماعت کا وفاقی حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے نوٹیفکیشن میں عرف عام میں اڈیالہ جیل راولپنڈی سے موسوم جیل کے لیے سنٹرل جیل راولپنڈی (جو کاغذوں اور ریکارڈ میں اس کا نام ہو سکتا ہے) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں۔ اس بنا پر جیل کے گیٹ نمبر 5 کے باہر سڑک پر ”سنٹرل جیل راولپنڈی“ کا بورڈ لگانا ضروری سمجھا گیا ہو، ورنہ کون نہیں جانتا کہ اڈیالہ جیل راولپنڈی ہو یا سنٹرل جیل راولپنڈی ہو، یہ ایک ہی جیل ہے جو اڈیالہ روڈ پر راولپنڈی سے جانب جنوب مغرب تقریباً بارہ تیرہ کلومیٹر کے فاصلے اوراڈیالہ گاؤں سے کم و بیش چار کلومیٹر پہلے دا ہکل زرعی انسٹی ٹیوٹ کے بالمقابل وسیع و عریض جگہ پر موجود ہے۔
اڈیالہ روڈ پر جیل کے گیٹ نمبر 5 کے سامنے ”سنٹرل جیل راولپنڈی“ کا نیا بورڈ لگانے کا جواز یا تقاضا کچھ بھی ہو، تاہم راولپنڈی میں پتہ نہیں کب سے قائم پرانی سنٹرل جیل راولپنڈی کی اڈیالہ روڈ پر نئی عمارت میں منتقلی کی سرگزشت بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی کی حامل اور معلومات افزا سمجھی جا سکتی ہے۔ پچھلی صدی کے اَسّی کے عشرے کے آخری برسوں تک راولپنڈی کی سنٹرل جیل ضلع کچہری روالپنڈی سے ملحق جانب مشرق بلند و بالا پتھریلی دیواروں کے حصار میں ایک وسیع و عریض احاطے میں قائم تھی۔ اِس وقت اس احاطے میں ایک طرف جوڈیشل کمپلیکس کی سرخ اینٹوں سے بنی گنبدوں اور برجیوں والی تین منزلہ عمارت موجود ہے تو اس کے بالمقابل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام پر قائم جناح پارک بھی پھیلا ہوا ہے۔ یہ پارک کم اور کمرشل کمپلیکس زیادہ ہے کہ اس میں میکڈونلڈاور کے ایف سی جیسے ملٹی نیشنل فوڈ چینز کی برانچیں ہی قائم نہیں ہیں بلکہ سنی پیکس ملٹی سکرین سینما اور کچھ دوسری تفریح گاہیں اور ریستوران بھی موجود ہیں۔ اس احاطے میں پرانی جیل کے وقت سے موجود چوڑے اور موٹے تنے اور گھنی اور دور دور تک پھیل شاخوں والے بڑ کے ایک دو پیڑ بھی اپنی جگہوں پر موجود ہیں تو اس کے ساتھ جیل کے پھانسی گھاٹ والی جگہ پر پاکستان کے چاروں صوبوں کی علامت کے طور پر اونچے مینار بھی کھڑے ہیں۔ یہ پھانسی گھاٹ وہی تھا جہاں 4 اپریل 1979ء کو پاکستان کے سابقہ وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین جناب ذوالفقار علی بھٹو جلاد تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر جھول کر موت سے ہم کنار ہوئے تھے۔

 

تبصرے بند ہیں.