آسٹریلیا کے تقریباً ڈیڑھ ماہ کے دورے کے بعد اسی ماہ ایک اور غیر مُلکی سفر سے پہلے پہلے میں وطن واپس لوٹ آیا ہوں، دوست مزید قیام کے لئے اصرار کر رہے تھے، نیوزی لینڈ اور انڈونیشیا (بالی) میں مقیم دوستوں سے وعدہ کر رکھا تھا اس بار اُن کے پاس بھی آؤں گا، مگر آسٹریلیا میں مقیم کی محبت ہی اتنی تھی کہیں اور جا نہیں سکا، سو یہ وعدہ بھی دیگر کئی وعدوں کی طرح وفا نہ ہو سکا، ہمارے وعدے بس ایسے ہی ہوتے ہیں، ایک بار ایک بیوروکریٹ دوست حسیب اطہر کو میں نے ایک مشاعرے میں مدعو کیا، وہ کہنے لگے ”میں حاضر ہو جاؤں گا مگر وعدہ کریں آپ مجھے اسٹیج پر نہیں بیٹھائیں گے“، میں نے عرض کیا ”سر میں وعدہ کرتا ہوں مگر میرا وعدہ ہوگا“ پاکستانی مسلمانوں ”جیسا”، ہم “پاکستانی مسلمانوں“ کے نزدیک وعدے کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں، البتہ میں یہ ضرور بتانا چاہوں گا ایک آسٹریلوی رُکن پارلیمینٹ نے مجھے لنچ پر مدعو کیا، وہ ویل چیئر پر تشریف لائیں، کیونکہ چند گھنٹے پہلے گرنے سے اُن کے پاؤں میں موچ آگئی تھی، مجھے بہت حیرت ہوئی، میں نے اُن سے کہا ”آپ نہ آتیں“ وہ بولیں ”کیسے نہ آتی؟ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا“، تب مجھے اپنے کچھ بدبخت سیاسی، عدالتی و فوجی حکمران یاد آئے جو وعدہ کو چھوڑیں اپنے حلف کی پروا بھی نہیں کرتے، اب ایک اور واقعہ مجھے یاد آرہا ہے، ایک بار جناب عطاالحق قاسمی کے والد محترم حضرت مولانا بہاؤ الحق قاسمی کے پاس قومی اسمبلی کے الیکشن کا ایک اُمیدوار آیا اُن سے کہنے لگا ”حضرت اس بار آپ نے ووٹ مجھے دینا ہے“، وہ بولے ”میں یہ نہیں کر سکوں گا کیونکہ کل آپ کا مخالف اُمیدوار میرے پاس آیا تھا میں نے اُسے ووٹ دینے کا وعدہ کر لیا ہے“، وہ فرمانے لگے ”حضرت چھوڑیں وعدے کا کیا ہوتا ہے، وعدے تو بندہ کرتا رہتا ہے“، مولانا بہاؤالحق قاسمی نے برجستہ جواب دیا ”اچھا، وعدے کا کچھ نہیں ہوتا، چلیں پھر آپ سے بھی وعدہ ووٹ آپ کو دوں گا“۔۔ پاکستان آنے کی جلدی ایک تو مجھے اس لئے تھی کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا، اور میں یہ چاہتا تھا مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنے کچھ ”خفیہ دوستوں“ کی میں خدمت کر سکوں، یعنی جس جماعت یا اُمیدوار کی حمایت کا وہ مجھے حکم دیں اُس کی تعمیل کر سکوں، میں چاہتا تھا میرے کچھ اینکر دوست اس معاملے میں مجھ سے آگے نہ نکل جائیں اور میں ”حُب الوطنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جاؤں، دوسری وجہ میری واپسی کی یہ تھی آسٹریلیا کے صاف سُتھرے ماحول میں میرا دَم گُھٹنے لگا تھا، مجھے کراہت آنے لگی تھی، پاکستان خصوصاً لاہور کی فضا کو میں اتنا مس کر رہا تھا اگر فوری طور پر میں واپس نہ آتا مر جاتا، یا پھر میں نے آسٹریلیا کی فضا کو گندہ کرنا شروع کر دینا تھا، جس کے میرے پاس کئی طریقے تھے، آسٹریلیا کے سسٹم کے خوف سے چُونکہ میں ایسا کرنے سے قاصر تھا چنانچہ میں نے سوچا پاکستان واپس جا کر آلودگی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ”محب وطن پاکستانی“ ہونے کا ثبوت دیتا ہوں، سو جیسے ہی میرا جہاز لاہور کی فضاؤں سے ٹکرایا میرے جسم نے مختلف اقسام کی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیں، جہاز کی لینڈنگ سے کچھ دیر پہلے ایئر ہوسٹس نے ایک بیگ میرے آگے کیا اور کہا ”کُوڑا کرکٹ اس میں ڈال دیں“، میں نے اُس سے کہا ”تم پاگل ہوگئی ہو، اتنی ”قیمتی شے“ میں تمہیں کیوں واپس کروں؟ یہ میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور باہر نکل کر اپنی سڑکوں پر پھینکوں گا تاکہ میری سڑکوں کو پتہ چلے مہذب معاشروں کا صاف سُتھرا ماحول کسی پاکستانی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا“، جہاز سے نکل کر ایئرپورٹ کے اندر آیا غیر معمولی سکیورٹی کے انتظامات دیکھ کر ایک اہل کار سے اس کی وجہ پوچھی اُس نے بتایا عدلیہ کی ایک اعلیٰ شخصیت بیرون مُلک جا رہی ہے، یہ انتظامات اُن کی سکیورٹی اور پروٹوکول وغیرہ کے لئے کئے گئے ہیں، میں نے شُکر کیا اس بار میں نے اپنے پروٹوکول کے لئے کسی سے گزارش نہیں کی تھی ورنہ عدلیہ کی وہ محترم شخصیت از خود نوٹس لے لیتی کہ میرے ہوتے ہوئے کوئی اور پروٹوکول لینے والا ہوتا کون ہے؟، میں نے ادھر اْدھر دیکھا وہ شخصیت مجھے کہیں دیکھائی نہیں دی ورنہ میں اُن سے پوچھتا ”سر یہاں تو حسب منشا پروٹوکول آپ نے لے لیا، بیرون مْلک ایئرپورٹ پر اگر آپ کی پینٹ اُتروا لی گئی وہاں آپ کیا کریں گے؟۔۔ جہاز سے باہر نکل کر فضا کو میں نے اُتنا ہی آلودہ پایا جتنی توقع تھی، آسٹریلیا میں مقیم میرے پاکستانی دوستوں کو چُونکہ لاہور کی آلودگی کا اندازہ تھا، سموگ کی اطلاع تھی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی وہ آگاہ تھے تو بوقت رخصت حفاظتی اقدامات کے طور پر کچھ ماسک وغیرہ اْنہوں نے مجھے دے دئیے اور کہا جہاز سے باہر نکلتے ہی پہن لینا، میں نے وہ ماسک نہیں پہنے کیونکہ میں وہ ماسک پہن کر اپنے وطن کی آلودگی کی توہین نہیں کرنا چاہتا تھا، ائرپورٹ سے باہر نکلتے ہی میں نے سجدہ شُکر ادا کیا، وطن کی مٹی اُٹھا کر سُونگھا میری طبیعت متلانے لگی، میں نے ساتھ کھڑے اپنے بیٹے سے کہا ”پُتر وطن دی مٹی وچ ہُن اوہ خوشبو نئیں رئی“، وہ بولا ”ابا جی تُسی مٹی نئیں کُجھ ہور چُک لیا اے“۔۔ بہرحال میں اب خیر خیریت سے وطن واپس پہنچ گیا ہوں، میں جب آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، جاپان یا یورپ جاتا ہوں زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ ماہ ہی وہاں میرا گزارا ہوتا ہے، میں نے بارہا ان مُلکوں میں جا کر دیکھا بالاآخر میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں میرا وہاں گزارا نہیں ہوسکتا، ایک تو ان مُلکوں میں اپنی فطرت کے مطابق میں گند نہیں ڈال سکتا، جھوٹ نہیں بول سکتا، میری ”اُنگلی“راہ چلتی خواتین کو حسرت بھری نگاہوں سے صرف دیکھتی رہتی ہے، یہاں میں غیبت بھی نہیں کر سکتا، یہ نہیں کہ اس مقصد کے لئے وہاں مجھے پاکستانی دوست نہیں ملتے، اصل میں اُن بیچاروں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا اپنی پاکستانی فطرت کے مطابق کوئی کام وہ کر سکیں، ایک اور بہت بڑے المیے کا سامنا ان مْلکوں میں مجھے یہ کرنا پڑتا ہے میں جگہ جگہ پیشاب نہیں کر سکتا نہ تْھوک سکتا ہوں، چنانچہ آسٹریلیا سے واپسی پر جہاز سے باہر نکلتے ہی سب سے پہلے منہ بھر کے میں نے تھوکا اور آسٹریلیا جیسے مُلکوں کو یہ پیغام دیا ”میں تم پر تھوکتا بھی نہیں“۔۔
دوستو میں پاکستان واپس آگیا ہوں، آپ کے لئے ”خوشخبری“ یہ ہے آسٹریلیا کا صاف سُتھرا ماحول اور سسٹم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اب میں اُسی طرح آپ سے مل کر جھوٹ بولوں گا، غیبت کروں گا، لوگوں کی پگڑیاں اُچھالُوں گا، لوگوں کے ساتھ ظلم ہوتے ہوئے دیکھوں گا اور چُپ رہوں گا، لُوٹ مار کروں گا، جگہ جگہ تھوکوں گا، پیشاب کروں گا، آلودگی میں اپنا حصہ ڈالوں گا، انشااللہ ”خوب گُزرے گی مل بیٹھیں گے جو دیوانے دو“۔۔
تبصرے بند ہیں.