الیکشن کراؤ، ملک بچاؤ

99

ملک میں عام انتخابات کیلئے آٹھ فروری کی تاریخ دئیے جانے کے بعد اگر مگر کا سلسلہ جاری رکھ کر غیر یقینی کی فضا پیدا کرنا پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے مترادف ہے، بروقت نوٹس نہ لیا گیا تو اس سازش کا نتیجہ مارشل لا یا پھر ایک اور نو مئی کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن سے واپسی کے بعد سے یہ نظر آنا شروع ہوگیا ہے کہ انتخابات کو ٹالنے کی پالیسی ترک کردی گئی ہے، یقینا اس سے پہلے صرف پی ٹی آئی اور اس کے بیرونی سرپرست ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کھل کر فریق بنے ہوئے تھے، اپنی مرضی کا انتخابی عمل چاہتے تھے حتیٰ کہ آئین کو بھی ری رائٹ کر ڈالا، ریٹائرڈ جرنیلوں کے ایک ٹولے اور کچھ حاضر سروس افسروں نے بھی بہت غدر مچا رکھا تھا، اس گروہ کے خلاف قرار واقعی کارروائی تو اب تک نہیں ہوسکی تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ نو مئی کے بعد یہ سب ایکسپوز ہوگئے، سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت ملک میں ہو کیا رہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں، رہائی کے دور دور تک آثار نہیں بلکہ سزائیں اور نااہلیاں راہ تک رہی ہیں، غیر ملکی سفرا اور اشرافیہ کی تمام سازشیں اور کاوشیں بے کار ثابت ہو رہی ہیں، خود پی ٹی آئی کے حامی ذہنی طور پر تیار ہو چکے کہ اگلے حکومتی سیٹ اپ میں ان کیلئے کوئی گنجائش نہیں، ان حالات میں کسی کی نام نہاد مقبولیت، خراب اقتصادی صورتحال یا پھر امن و امان کی خرابی کو بنیاد بنا کر الیکشن کے التوا کی بات کرنا ان طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے جو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ آنے پائے، سوال تو یہ ہے وہ کون ہے جو پاکستان میں سیاسی و جمہوری عمل کو چلتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا، ٹی ٹی پی والے اس حوالے سے کھل کر کہہ چکے ہیں وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے، اس کے بعد وہ پارٹی جس کے جیل میں بند سربراہ نے باربار کہا کہ اگر اس کو حکومت نہ ملی تو ملک ٹوٹ کر تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ یا پھر اس قسم کی ہرزہ سرائی کی کہ اس سے تو بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گر جاتا، یہ ذہنیت صرف پی ٹی آئی کے اسیر چیئرمین تک ہی محدود نہیں بلکہ ان حامیوں کی کثیر تعداد بھی ایسا ہی سمجھتی اور کہتی ہے اس لیے اس گروہ کے ساتھ نمٹنے کیلئے طریقے بھی مختلف ہی اپنانا ہوں گے، یہ کہہ دینا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت بہت زیادہ ہے، پولنگ ڈے پر اس کے ووٹر بڑی تعداد میں باہر نکل کر بازی الٹا دیں گے خالصتاً دھوکہ ہے، آج کل کے ووٹر بھی بہت سمجھدار ہیں وہ جان لیتے ہیں کہ سیاسی ہوا کس جماعت کی موافقت میں چل رہی ہے، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امیدوار کون ہے جس نے ان کے ذاتی، اجتماعی اور علاقائی مسائل حل کرانے ہیں،ووٹ اسی جماعت کو پڑتے ہیں جو اپنی مقبولیت کے ساتھ تنظیم سازی اور الیکشن کے حوالے سے تمام عوامل کو احسن طریقے سے بھگتانے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسی طرح یہ کہنا کہ ملک کی معاشی صورتحال عام انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی سفید جھوٹ ہے۔ پی ٹی آئی دور میں یقینی طور پر معاشی تباہی ہوئی (جو نالائقی سے زیادہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی)۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی دیکھ کر پی ٹی آئی کی حکومت نے ملکی معیشت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھائیں پھر کوشش کی کہ پاکستان کے پاس نادہندہ ہونے کے سوا کوئی اور راستہ نہ بچے۔ پی ڈی ایم اے اور اسکی اتحادی جماعتوں کی حکومت نے اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگا کر ملک کو نہ صرف ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ آئی ایم ایف سے خطرے میں پڑی ہوئی ڈیل کو بھی بحال کیا، اس کے بعد سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل بنا کر بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی بنیاد رکھی، اس پالیسی میں عسکری قیادت کی غیر متزلزل اور عملی حمایت کے باعث اس وقت سے لے کر آج تک کامیابی سے عمل جاری ہے، ظاہر ہے کہ اگلی منتخب حکومت کے قیام کے بعد مزید تیزی آئے گی، رہ گیا معاملہ امن و امان کا تو اس وقت جو خطرات لاحق ہیں وہ نہ تو 2008 کے انتخابات سے زیادہ سنگین ہیں کہ جب اس سے چند ماہ قبل بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تھا، نہ ہی خطرات 2013 والے ہیں جب جگہ جگہ خود کش حملے ہورہے تھے، آج کے پی کے نشانے پر ہے تو وجہ سب کو معلوم ہے، بلوچستان میں دہشت گردی کیوں ہے یہ جاننا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں، احسن بات یہ ہے کہ موثر اور مربوط آپریشن کے ذریعے شرپسندوں کو قابو کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی پراجیکٹ کی بظاہر تائب ہونے والی باقیات موجودہ عسکری قیادت کو متنازع بنانے کے سوچے سمجھے منصوبہ پر عمل پیرا ہے، شیخ رشید کو ہی دیکھ لیں، بار بار کہہ رہے ہیں کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو معافی دے دی جائے۔ دنیا کے سامنے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ ملوث نہیں انہیں چھوڑ دیا جائے، اس گفتگو سے صرف ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ پاک فوج نے نو مئی کے واقعات کی آڑ میں کئی معصوم شہریوں اور سیاسی کارکنوں کو پکڑ رکھا ہے اور ان کے گھر والوں کی زندگیاں بھی اجیرن کی جارہی ہیں، یہی باریک کام میڈیا پر بیٹھے مخصوص اینکروں اور تجزیہ کاروں کا گروہ ڈال رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کیلئے ویسے ہی بھونڈے ایشو گھڑے جارہے ہیں جیسے پی ٹی آئی دور میں ففتھ جنریشن وار میڈیا بریگیڈ کے ذریعے تراشے جاتے تھے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ فیصل واوڈا کس کی ترجمانی کرتے ہوئے سیاسی پیش گوئیاں کر رہا ہے اور لوگوں کی حب الوطنی کو مشکوک اور کردار کو داغدار ثابت کرنے کی ڈیوٹی کررہا ہے۔ محمد علی درانی کس کی شہ پر کہہ رہے ہیں کہ نواز، شہباز، زرداری اب کسی بھی بڑے عہدے کیلئے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیں۔ اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو جاننا مشکل نہیں، ان تمام عناصر کی ایسی حرکتیں فوجی قیادت بالخصوص آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پوزیشن کو متاثر کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی اور اسکی قیادت نو مئی سمیت جو کچھ کر چکی اسکا مقصد بھی یہی تھا تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جانے انجانے میں ایک ہی ٹارگٹ متعین کرلیا گیا ہے۔ یہ پہلو بھی کسی طورپر نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آئین سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دے گی۔ عام انتخابات کا التوا سیاسی ہی نہیں عدالتی حوالے سے بھی ایک بہت بڑی محاذ آرائی کو جنم دے گا۔ انتخابات بروقت ہونا لازم ہیں۔ پی ٹی آئی کے مقدمات سے نمٹنا ریاست کی ذمہ داری ہے، قانون کا شکنجہ مزید سخت ہونا چاہیے تاکہ کوئی دوبارہ نو مئی جیسے واقعات دھرا کر ملک میں خانہ جنگی کرانے کی سازش کرنے کا تصور بھی نہ کرے۔ الیکشن ملتوی ہوئے تو اس سے ماحول اس حد تک خراب ہوسکتا ہے کہ اسکا درست اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں، ان عناصر کو پاس پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے جو تاثر دے رہے ہیں کہ معاملات سیدھے کرنے کیلئے مارشل لا لگایا جاسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.