”اقتدار جاوید ابھی ہے؟“
میں جب گاڑی چلاتا ہوا نہر سے اقبال ٹاؤن کی طرف جارہا تھا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا…… ”اقتدار جاوید ابھی زندہ ہے……؟“”اقتدار جاوید …… ابھی زندہ ہے“۔
میں شرمندہ تھا کہ ایک دفعہ میں نے کہا تھا کہ ”شرافت فوت ہو چکی ہے“۔ مگر اقتدار جاوید کو دیکھ کراُن کی عمران خان کے حوالے سے ضد اور ضدی انداز دیکھ کر جو بعد میں مجھے اُس وقت مزید دکھی لگا جب میں نے جیب سے اک RESERVE ٹشو پیپر نکال لیا جو میں نے دراصل خواتین کے لیے رکھا ہوتا ہے (بوقت ضرورت اپنے ہاتھ سے اُن کے آنسو پوچھنے کے لیے) کہ مبادا اقتدار جاوید کہیں آنسوؤں سے رونے نا لگ جائے؟! جناب سہیل وڑائچ کی دلیلیں سہم کر رہ گئیں یاسر پیر زادہ کی تاویلیں دُبک کر بیٹھ گئیں …… مگر اقتدار سب کچھ سمجھ کر بھی…… نا سمجھنے پر بضد تھا کہ جناب عطا الحق قاسمی نے اُنہیں شعر سنانے کی فرمائش کر دی۔ شاعر اصلی ہو…… حسین و جمیل محبوبہ پہلو میں بیٹھی ہو اور مسمی کی اِک اِک پھانک اپنے ہاتھ سے چھکے اتار اتار کر آپ کے منہ میں ڈال رہی ہو اور آپ کا دل چاہے اُس کی انگلی غلطی سے آپ کے منہ کے پاس آئے اور آپ ”دندی“ کاٹ لیں اور معاً صدر مشاعرہ خود اعلان کر دیں کہ اقتدار جاوید اپنے خوبصور ت اشعار پیش کریں گے…… سب بھول بھال کر شاعر…… پوری لگن، محبت اور انہماک سے شعر سنانے لگ جائے گا…… مجھے یہ محفل مشاعرہ لگنے لگی تھی کہ یکدم حافظ عزیز احمد ’گڑھی شاہو والے‘ اپنی شاعری سمیت نمودار ہوئے اور ڈھڑ دھڑ…… شعر پھینکنے لگے…… میں نے حسب عادت فون نکالا…… اور بددلی سے TIK TOK کھولی کہ حافظ عزیر احمد کا یہ شعر میری سماعتوں سے ٹکرایا:
زندگی کے میلے میں شام ہوگئی جاناں
گھر کو لوٹ جانے میں شام ہو گئی جاناں
دن چڑھاہے تیرے روئے روشن پر
اور تیرے لہجے میں شام ہو گئی جاناں
”واہ“ …… ”واہ“ میری شاعری سے دوری جیسی طبیعت نے لذت محسوس کی…… انداز دل ربا تھا کہ ایسے میں
جس کے بغیر سانس بھی لینا محال تھا
ہائے وہ ایک شخص بھلانا پڑا مجھے
جیون میں کوئی اور تھا دل میں تھا کوئی اور
دونوں سے دل کا حال چھپانا پڑا مجھے
جیسی عالی شان شاعری محترمہ صغرا صدف صاحبہ نے سنا ڈالی۔ میں نے محسوس کیاکہ جناب عباس تابش بھی لہلہا رہے تھے محترمہ کے اشعار سُن کر……
سہیل وڑائچ کی نہایت ثقیل گفتگو /پیش گوئی جاری تھی کہ جناب عطاء الحق قا سمی صاحب نے قمر ریاض کی طرف توجہ مبذول کی اور قمر ریاض نے محفل پر سنجیدگی طاری کر دی۔ نہایت خوبصورت اشعار
زمین کھود کے اُس میں اتار دو گے مجھے؟
گئے دنوں کی طرح تم گزار دو گے مجھے؟
تم ایک بار تو مصلوب کر چکے ہو دوست
میں بچ گیا ہوں تو کیا پھر سے مار دو گے مجھے؟
قمر ریاض کی شاعری میں لذت تھی۔
مجھے محترمہ عائشہ عظیم صاحبہ کے وہ قیمتی الفاظ یادآگئے…… فرماتی ہیں۔ (توجہ سے پڑھنا شرط ہے)
”گرل فرینڈ سے ملتے رہا کریں۔ آپ کا احساس گناہ بیوی کے ساتھ آپ کا سلوک اچھا کر دیتا ہے۔ گھر میں لڑائی کم ہوتی ہے۔ ظرف کشادہ اور ہاتھ سخی ہوتا ہے…… ایک تیر دو شکار“……
محترمہ عائشہ عظیم صاحبہ کی فیس بک پر پوسٹوں سے مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ ان کے خوبصورت فقرے، بامعنی چٹکلے اور نہایت سنجیدہ چلبلی باتیں،بزرگ جملے اکٹھے کر کے ملا نصیر الدین کے لطیفوں جیسی کتاب ترتیب دے دوں مگر یکدم بے خیالی میں سوچتا ہوں محرمہ عائشہ عظیم کی PROVERBS اکٹھے کر کے حکایات بوستان جیسی کتاب کیوں نا پرنٹ کردوں؟ یا کوئی علمی کامَ
…… سعد اللہ شاہ کا شعر ملا حظہ ہو
یہ ثقافت ہے ہنر ہے کہ وفا
اُس کو دیکھا ہے سویٹر بنتے
محفل اتنی سنجیدہ اور ماحول خوبصورت…… بیس سال پہلے جبار مفتی صاحب نے ملتان ”نوائے وقت“ دفتر بیٹھے آہستہ سے کہا…… حافظ صاحب شاکر شجاع آبادی سے ملیں …… ”جی جی“ …… میں نے الرٹ ہوتے ہوئے پوچھا……! چلیں شاکر شجاع آبادی سے ملنے……؟! جنہیں حال ہی میں بہاولپور یونیورسٹی نے اعزازی ڈگری دی اور ہم رواں دواں تھے …… چھوٹے سے کمرے میں دھواں …… نیم تاریک ماحول اور ٹوٹی چار پائی پر لیٹا یہ صوفی شاعر……! معذوری مگر بے بدل شاعری ……
پھر ہم رحیم یار خان کے اک مشاعرے میں گئے…… جبارؔ مفتی صاحب اور شاکر صاحب وہ دل میں اترتی شاعری بیس سال پہلے حالات ایسے نا تھے…… مفتی صاحب نے میرے کان میں کہا …… (ہم تینوں تھے اور ماحول میں تناؤ پیدا ہو گیا……
”حافظ صاحب یہ شاعری اگر یہ شاعر عوام میں پڑھ دے تو دس منٹ بعد گرفتار ہو جائے؟!“ میری ہنسی نکل گئی…… اور یکدم سنجیدہ ہوتے ہوئے میں نے کہا…… ”ڈرتے ڈرتے…… حالات کا جائزہ لیتے ہوئے……
”مفتی صاحب پاکستان کے حالات جس سمت بڑھ رہے ہیں دس بیس سال بعد ایسی شاعری مجبوری بن جائے گی اگر محب وطن قوتوں نے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری نا کیں …… یہی بات آج لاہور کا بڑا صحافی نوید چوہدری کہہ رہا ہے…… آج شاکر شجاع آبادی کی وہ شاعری گلی محلوں میں پڑھی جا رہی ہے…… اسرائیل کا حکمران کہہ رہا ہے کہ ہمیں ”ایران اور پاکستان“ سے نمٹنا ہے……!؟!
یعنی پاکستان اسرائیل کے نشانے پر ہے…… نہایت کٹھن حالات، عطاء الحق قاسمی کے گھر بڑے صحافیوں، دانشوروں، شعراء شعیب بن عزیز، جناب عمران چوہدری، سفیر پاکستان ان عمان یاسر پیرزادہ جیسے حالات پر نظر رکھے لوگ اپنی اپنی دنیا میں علمی باتیں کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ ”یہ ہونا چاہیے…… یہ ہی ہونا چاہیے …… مگر یہ تو ہو کر رہے گا؟“
جو بات شاکر شجاع آبادی نے شاعری کے ذریعے کر دی تھی اوار آج گلی گلی ہو رہی ہے زبان زد عام ہے…… وہی باتیں …… آج سہیل وڑائچ، اقتدار جاوید، شعیب بن عزیز، یاسر پیرزادہ، عمران چوہدری، نوید چوہدری، صغرا صدف یا ایسے ہی چوٹی کے دانشور …… نجی محفل میں کر رہے ہیں …… وہی باتیں کل یہی دانشور، شعراء اور پاکستان سے محبت کرنے والے مفکرین بھرے مجمع میں کریں گے (اللہ نا کرے وہ دن آئے) اور عوام پریشانی میں سوچیں گے کہ کاش ہمیں نہ صرف یہ سب وقت پر بتادیا گیا ہوتا اور ہم سب انٹرنیشنل سازشوں کا شکار ہونے سے پہلے اُن کا تدارک کر لیتے اور آپس میں دست و گریبان ہونے میں وقت اور توانائی ضائع نہ کرتے؟“ مزاح لکھنے میں مزاح پڑھنے میں، محفل کو کشت زعفران بنانے میں عطاء الحق قاسمی اپنی مثال آپ ہیں لیکن اُن کی کوئی تحریر ایسی نہیں جس میں سبق نہ ہو کوئی گفتگو ایسی نہیں جس میں علمیت نہ ہو اور کوئی ایسا چٹکلا نہیں جو آپ کو سنجیدہ اور اکثر اوقات رنجیدہ نہ کر دے…… یہ ہوتی ہے دانشوری؟!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.