ملکی معیشت کیسے بہتر ہو

145

گذشتہ کچھ عرصہ سے اور خاص طور پر پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد جب سے وفاق میں نگران حکومت قائم ہوئی ہے تو ایک زبردست تاثر ہے کہ معیشت میں بڑی بہتری آ رہی ہے اور اس کے لئے دلیل یہ دی جاتی ہے ڈالر کا ریٹ نیچے آیا ہے پیٹرول کے نرخ تاریخ میں کبھی ایک ساتھ 40 روپے کم نہیں ہوئے اور سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 59 ہزار پوائنٹس کی حد سے بھی اوپر پہنچ چکا ہے لاریب کہ دلائل میں وزن تو ہے لیکن اس حوالے سے پہلا سوال یہ ہے کہ جس طرح ڈالر کو پکڑ پکڑ کر اس کا ریٹ نیچے لایا گیا اور اس کی افغانستان سمگلنگ کو روکنے کے لئے سخت ترین اقدامات کئے گئے تو یہ سب کچھ بیچاری پی ڈی ایم کی حکومت میں کیوں نہیں کیا گیا۔ اسحق ڈار بیچارے اتنے ارمانوں سے بھڑکیں مارتے ہوئے سات سمندر پار سے پاکستان واپس تشریف لائے تھے تو پی ڈی ایم حکومت نہیں تو کم از کم ان کے ارمانوں کا ہی خیال کر لیا جاتا تو عین ممکن ہے کہ ڈالر کی اونچی اڑانیں کچھ تھم جاتی یا اگر اڑان بھرتی بھی تو سنگل سنگل رن لیتے ہوئے بڑھتی ٹی ٹونٹی کی طرح چھکے مارتے ہوئے تو نہ بڑھتی اور پھر اسی تناسب سے پیٹرول کے نرخ بڑھے تو جب عزت مآب پیٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں تو جان سے زیادہ عزیز بجلی بیگم کے نرخ تو بڑھنے ہی ہوتے ہیں اور جب ان سب کا ایکا ہو گیا تو پھر منگیائی نے غریب کی منجھی اس طرح ٹھوکی کہ آج پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنی منجھی کے لئے عوام جگہ نہیں دے رہے۔

خیر بات کسی اور طرف چلی گئی اصل سوال یہ تھا کہ ڈالر کے نرخ اگر نیچے آئے ہیں تو کیا اس کی وجہ پاکستان کی معیشت کی ترقی ہے کیا پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں جو اضافہ ہوا ہے یہ اضافہ پاکستان کی برآمدات میں ایک دم غیر معمولی اضافہ سے ممکن ہوا ہے یا پاکستان میں کاروبار کی دنیا میں ایسا انقلاب آیا کہ اس کے نتیجہ میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی اگر تو ایسا ہوتا تو یقینا ہم بھی اس دعوے پر اپنی حقیر فقیرانہ مہر تصدیق ثبت کر دیتے لیکن کیا کریں کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں جتنا اضافہ ہوا ہے وہ تو سب
”دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ہی بوٹا لائے گا”

یہ سب تو دوست ممالک کی مہربانی کہ انھوں نے ہمارے حال پر نظر کرم کی اور بروقت آئی ایم ایف کی تسلی کے لئے ہمیں کچھ قرض کی مد میں کچھ امداد اور کچھ امانت کی مد میں ہماری مدد کر دی جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور اسی کے نتیجہ میں ڈالر بہادر کے نرخ نیچے آئے جس کی وجہ سے پیٹرول بھائی جان کی قیمتیں کم ہوئیں لیکن بجلی سخت جان ہے اس پر ایسے ٹوٹکوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

خدائے بزرگ و برتر کی ذات کا بڑا کرم ہے کہ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے جس جگہ واقع ہے اس کے اطراف میں آدھی سے زیادہ دنیا بستی ہے۔ صرف ہندوستان اور چین جن کی سرحدیں ہم سے ملتی ہیں ان دونوں ممالک میں دنیا کی کم و بیش آدھی آبادی رہتی ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ چین معاشی طور پر بہت ترقی کر چکا ہے اور ہندوستان بھی ہم سے دس گنا بڑا ملک ہے لیکن پھر بھی ہمارے پاس بہت وسیع رینج ہے کہ اگر ہم اپنے ملک میں وہ اشیاء کہ یہ دونوں ممالک اور اس کے ساتھ ساتھ ایران اور روس سمیت وسط ایشیاء کی ریاستیں ہمارے دروازے پر ہیں۔ اگر ہم اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ممالک کی درآمدات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہئے اور خاص طور پر ان کا کہ جو دور کے ممالک سے آتی ہیں تو اگر ان میں سے جو ہم بنا سکتے ہیں وہ بنا لیں اور وہ بین الاقوامی معیار پر پورا بھی اترتی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ سستی لیبر اور کرایہ کی بچت کے ساتھ اچھے معیار کی سستی اشیاء ہم سے نہ خریدی جائیں۔

اس کے علاوہ دنیا میں ہر روز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں اور ان میں سے بہت سی ایسی ضرور ہوں گی کہ مستقبل میں جن کی مانگ ہو سکتی ہے تو ایک ادارہ بنائیں جو اس طرح کے معاملات پر نظر رکھیں اور ہماری تاجر برادری کو اس حوالے سے گائیڈ لائن دے۔ اس کے علاوہ ایک بات پر غور کریں کہ ہم ایک ایک ڈالر کے لئے دنیا بھر میں ہاتھ پھیلا کر ترلے منتیں کرتے ہیں۔ پڑوس کے ملک کی ایک مثال کہ لوگ کس کس طریقہ سے اپنی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں۔ ہندوستان میں 12سال بعد کمبھ کا میلا ہوتا ہے یہ خالص ہندو تہوار ہے اور کسی اور مذہب کے ماننے والوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن ایک اچھے تاجر کی خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے ہر قسم کے مال کو بیچنے کا ہنر جانتا ہے اور ہندوستان کو بھی یہ ہنر آتا ہے۔ اس میلے پرلاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے ہیں اور اربوں ڈالر زر مبادلہ ہندوستان کو دے کر جاتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی بیچنے کو بہت کچھ ہے۔ شمالی علاقہ جات کا حسن دنیا بھر کے سیاحوں کو پاکستان کی طرف مائل کرتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے انفرا سٹرکچر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنائیں اور ان علاقوں کو سیاحت کے لئے محفوظ بھی بنائیں۔ نوجوانوں کو علم نہیں لیکن ایک وقت تھا 70 کی دہائی تک پاکستان فلم انڈسٹری کی آدھی سے زیادہ فلموں کی شوٹنگ سوات ایسے پر فضا مقام پر ہوتی تھی لیکن پھر مشرف دور میں ملا فضل اللہ کی قیادت میں وہاں خونی چوک بن گیا تو ایسے میں وہاں پر جو لوگ تھے وہ وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تو باہر کا بندہ وہاں کیوں جائے گا۔ ہمیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے ملک میں کاروبار دوست ماحول تو بنانا چاہئے اور بیوروکریسی کو اس ماحول میں ڈھالنا پڑے گا۔ یہ سب کریں گے تو معیشت بہتری کی جانب سفر شروع کرے گی ورنہ فقط اعلانات اور کمیٹیاں بنانے سے نہ ماضی میں کچھ ہوا ہے اور نہ اب کچھ ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.