میاں نواز شریف جب سے واپس آئے ہیں وہ قانون کی مکمل طور پر پاسداری کررہے ہیں، انہو ں نے ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آنے دیا کہ جس سے تاثر ملے کہ وہ لاڈلے کا کردار نبھارہے ہیں، یا پھر وہ عمران خان کی طرح عدالتوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے کی ہی بات ہے، عمرا ن خان عدالتوں کے بلانے پر جاتے نہیں تھے، ٹرائل کورٹس کو آنکھیں دکھاتے تھے، اپنے لئے اسپیشل پروٹوکول لگواتے تھے۔ جس عدالت سے سزا یا فرد جرم کا خدشہ ہوتا تھا، اس عدالت پر جتھوں کے ذریعے حملہ آور ہو جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جج کو دھمکیاں تک دے دی جاتی تھیں۔ جج عدالتی وقت گزر جانے کے باوجود عمران خان کا انتظار کیا کرتے تھے اور آؤٹ آف وے جاکر ریلیف بھی مل جایا کرتا تھا۔ سانحہ نو مئی کرانے کے بعد ”گڈ ٹو سی یو“ جیسا ویلکم ملا کرتا تھا۔عمران خان کا یہی انصاف ہوا کرتا تھا، وہ اسی کو انصاف سمجھتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ لاڈلہ پروری ہو رہی ہوتی تھی۔
لیکن نواز شریف نے ایسا نہیں کیا، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ان کی سزائیں جھوٹی ہیں، سازشوں پر مشتمل ہیں، حتیٰ کہ جج بھی گواہیاں دے چکے ہیں، سزا سنانے والا ایک مرحوم جج اسی اعتراف پر نوکری سے ہاتھ بھی دھو بیٹھا۔ اس کے باوجود نواز شریف عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں، اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ عدلیہ کو خود اپنی ساکھ بچانے کے لئے نواز شریف کی سزائیں از خود نوٹس سے ختم کرنی چاہیے تھیں، لیکن نواز شریف نے یہ مطالبہ کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔
نواز شریف کو جب سزائیں ہو رہی تھیں، تب انہوں نے سو سے زائد پیشیاں بھگتیں۔ ایک دن بھی عدالت سے حاضری سے معافی کی درخواست نہیں دی۔انہوں نے جج پر الزام لگاکر حملہ بھی نہیں کیا، انہوں نے مانیٹرنگ جج جیسی انوکھی ٹرم پر بھی اعتراض نہیں کیا، اب جب سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کی ہے، تو بھی حاضری سے معافی کی درخواست نہیں دے رہے، بلکہ ہر چھوٹی بڑی پیشی پر پیش ہورہے ہیں۔
ایک کیس توشہ خانہ کا بھی کھولا گیا تھا،یہ کیس نواز شریف کی پاکستان میں غیر موجودگی میں محض سیاسی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ نواز شریف اس کیس میں بھی جج کے سامنے پیش ہوئے اور اب انہوں نے اس کیس کو ختم کرانے کے لئے اپنا باقاعدہ بیان قلم بند کرانے کی درخواست دی ہے۔ وہ چاہتے تو وکلاء کے ذریعے بھی اس جھوٹے مقدمے کو اڑا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس چھوٹے سے مقدمے میں بھی خود پیش ہونا مناسب سمجھا۔
قارئین محترم امر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ، لاڈلہ وہ ہوتا ہے جو عدالتوں سے سہولتیں حاصل کرے، اسٹیبلشمنٹ سے سہولتیں حاصل کرے، جسے پنجاب کی حکومت فرمائش پر بناکر دی جائے، جسے پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے آئین ہی ری رائٹ کردیا جائے۔ نواز شریف کے لئے بھی آئین سے باہر نکل کر فیصلے ہوئے لیکن وہ نواز شریف کے حق میں نہیں، نواز شریف کے خلاف کیے گئے۔ بس یہی فرق ہے ایک لاڈلے میں اور ایک جمہوری لیڈر میں۔ نواز شریف جمہوری لیڈر ہے تو ہر ظلم برداشت کرلیا، ہر انتقام سہہ لیا لیکن سسٹم سے بغاوت نہیں کی، ریاست پر حملہ نہیں کیا۔ دوسرے کو لاڈلے کی نشست سے برخاست کیا گیا تو وہ پاگل ہوگیا اور ریاست پر ہی حملہ کر دیا۔ لیکن نواز شریف نے وسیع مفاد کا سوچا، ملک کے مفاد کا سوچا، قوم کے مفاد کا سوچا اسی لئے زیادتی بھی چپ چاپ سہہ گیا۔
جہاں نواز شریف عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں، وہاں اپنی پوری سیاسی بساط بھی تیار کر رہے ہیں، انہوں نے پاکستان واپس آتے ہی یک لمحہ ضائع کیے بغیر انتخابی محاذ تیار کرنا شرو ع کردیا۔ کیونکہ نواز شریف جانتے ہیں کہ بحران زیادہ ہیں اور وقت کم ہے۔ اس لئے وہ ابھی سے اپنا سیاسی، انتخابی اور حکومتی محاذ ساتھ ساتھ لیکر چل رہے ہیں،وہ کاروباری حضرات سے بھی مل رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کے لئے وفود سے بھی مل رہے ہیں اور اپنی انتخابی تیاری بھی بھرپور کررہے ہیں۔ بلوچستان گئے جہاں سے ان کی حکومت کے خلاف باقاعدہ سازش کا آغاز ہوا تھا، وہیں سے دوبارہ آغاز کیا۔ اپنے تمام لوگ واپس لے لئے، سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ تو باپ والے ہیں انہیں کیوں واپس لیا، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بلوچستان میں نواز شریف کی حکومت توڑ کر ہی باپ پارٹی بنائی گئی تھی۔
اگلی باری سندھ، خیبرپختونخواہ اور جنوبی پنجاب کی ہے۔ سینٹرل پنجاب اور شمالی پنجاب کو ن لیگ نے کافی حد تک سنبھال لیا ہے۔ صدر مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف ہر گزرتے دن کیساتھ رانا ثناء اللہ کی کاوشوں سے الیکٹیبلز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ الیکٹیبلز ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی ن لیگ کی اچھی خاصی پاور گیم تیار ہو رہی ہے، نواز شریف کا دورہ جنوبی پنجاب بھی سرپرائز سے بھرپور ہو گا۔سندھ میں بھی میاں نواز شریف کے دورے سے قبل بشیر میمن الیکٹیبلز کو بڑی تعداد میں ن لیگ میں شامل کرا رہے ہیں اور نواز شریف کے دورے کے موقع پر وہاں بھی گرینڈ شمولیت ہوگی۔
یہ تمام تفصیلات بتانے کا مقصد محض یہ ہے کہ، ان تیاریوں کا حق ہر سیاسی جماعت کو ہے اور وہ اپنی، اپنی بساط کے مطابق کرتے ہیں، نواز شریف بھی وہی کر رہے ہیں لیکن ان کی ان تیاریوں کو بھی نام نہاد لاڈلہ پلس کا نام دیا جا رہا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ 2018 میں نواز شریف کو ان تیاریوں کی بھی اجازت نہ تھی، تب بھی نواز شریف نے گلے شکوے نہیں کیے بلکہ انتخابی محاذ پر بھرپور جنگ لڑی اور ہر طرح کی سازش کے باوجود بھرپور طاقت کیساتھ پنجاب اور وفاق میں انٹری ماری تھی۔ اب ن لیگ کو میدان صاف مل رہا ہے تو یہ ان کا بنیادی حق ہے، انہیں ملنا چاہیے، اسی طرح یہی میدان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو بھی ملا ہے، وہ بھی اپنی بساط کے مطابق اڑان بھریں۔ شکوے شکایت کرنے والوں کی نذر شکیل اعظمی صاحب کا یہ شعر اور اجازت:
پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے
زمین پہ بیٹھ کر کیا آسما ن دیکھتا ہے
تبصرے بند ہیں.