محکمہ پولیس کرپشن سے پاک نہیں کرپشن آلود ہے، بیشتر پولیس افسران اور ملازمین راتوں میں جاگ کر ڈیوٹی نہیں بلکہ عوام سے لوٹ مار کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہوتے ہیں، آئی جی پنجاب کا چوہنگ ٹریننگ کالج لاہور میں حال ہی میں دیا گیا بیان خود اس کی تائید ہے دوران خطاب انہوں نے کہا کہ جب محکمہ کوکاسٹ آف انویسٹی گیشن کے لئے 2 سو 8 کروڑ چاہئے ہوتے ہیں تو 8 کروڑ روپے میں ہم گزرا کر لیتے ہیں کوتوال صوبہ نے جوش خطابت میں یہ بڑی بات کر دی،صرف یہی نہیں انہوں نے یہ بھی بتایاکہ چند لیٹر ایندھن سے گاڑیاں بھی چلوا لیتے ہیں، آئی جی صاحب کے اس بیانیہ پر نکتہ دانوں نے یہ مطلب اخذ کیا کہ کاسٹ آف انویسٹی گیشن کی مد میں آخر 2 سو کروڑ کی رقم کہاں سے پوری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ رقم سائلین اور متاثرین یا پھر کسی اورذریعہ سے وصول کی جا رہی ہے اور پیٹرول کی مد میں اخراجات کرنا الگ بات ہے۔ 8 کروڑ میں گزارا کرنے والا محکمہ باقی کے2سو کروڑ کی کاسٹ آف انویسٹی گیشن کیا آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جیز،آر پی اوز،سی پی اوز اور ڈی پی اوز یا پھر سی سی پی او، ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز، ایس پیز خود پلے سے ادا کر رہے ہیں؟یا پھر متعلقہ تفتیشی افسران اپنی تنخواہیں عطیہ کرکے خرچ کر رہے ہیں،ایسا تو ممکن نہیں، کیونکہ ان کی تنخواہیں کاسٹ آف انویسٹی گیشن یا پھر پٹرول کے شاہی خرچ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتیں۔ اگر انکی حق ہلال کی کمائیوں میں خرچ ہونے لگ گئی تو پھر ان کا اپنا گزارا کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا، پھرجو ایک بات سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے جو کاسٹ آف انویسٹی گیشن اور پٹرول سمیت تھانہ جات کے اخراجات عوام پر بوجھ ہیں۔ یہ بوجھ سائلین اور متاثرین ادا کر تے نظر بھی آتے ہیں۔ اخراجات زیادہ ہونے سے تھانہ جات کا کنٹرول علاقے کے روپے، پیسے والے بااثر افراد سنبھال لیتے ہیں اور بطور شیڈو پولیس آفیسر کام کرتے اور کرواتے ہیں۔ شاید وہ کسی حدتک ایسا کرنے میں حق بجانب بھی ہیں کیونکہ جو پیسہ خرچ کرتا ہے تواصولی طورپر کنٹرول بھی تو اسی کے پاس ہو گا۔ اس لئے بہت سے ایسے کام جو جائز نہیں اور میرٹ سے ہٹ کر ہوتے ہیں وہ کام پولیس سے کروائے جاتے ہیں، وہ شخص ناجائز کام اور میرٹ سے ہٹ کر فیصلے کروا بھی سکتا ہے کیونکہ وہ تھانے کا ”دیالو“ ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں جو خرچ کرتا ہے مالک بھی وہی ہوتا ہے۔ عوام پر 2 سو کروڑ کایوں بوجھ ڈالنا اور پیٹرول کی مد میں ہیر پھیر کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے، اس سے زیادہ قبیح اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ناانصافی اور ظلم کرنے والے ایسے افراد میرٹ کے خلاف من چاہا انصاف لے لیتے ہیں، اس میں قصور وار کوئی اور نہیں محکمہ کے اعلیٰ افسران ہی ہیں۔ اس کے باوجود آئی جی پنجاب یہ کہتے ہیں کہ ہم پر یہ الزامات ہیں؟ آئی جی پنجاب عثمان انور نے بڑے پیمانے پر پروموشنز کے دیرینہ معاملات نمٹا ڈالے، ویلفئیر کے بڑے بڑے کام کر ڈالے۔ محدود وسائل میں محکمہ چلائے جانے کا دعوی بھی کیا جاتا ہے جو کہ درست نہ ہے، آج کل تو تھانہ جات کی حالت زار کو بہتر کرنے کے لئے ایس ایچ اوز اور افسران کی ذمہ داری لگا دی گئی ہے تھانوں کو ماڈل بنایا جارہا ہے، یہ حکم بھی ان آفیسرز کو لوٹ مار کی طرف لے جاتا ہے خاص طور پر اس حکم کی روشنی میں کہ ناگفتہ بہ حالت والے تھانوں کو اتنا شاندار بنا دیا جائے کہ فائیو سٹار ہوٹل لگیں۔ یہ سب کرنے کے لئے درکار کروڑوں روپے آخر کہاں سے آرہے ہیں۔ کوئی نہ کوئی تو یہ سب رقم دے ہی رہا ہے محکمہ نے تو انہیں جلد رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ مرمتی کام کرواتے جا رہے ہیں۔ یہ دراصل ایس ایچ اوز اور تھانیداروں کو لائسنس مل چکا ہے کہ جس کے نتیجے میں وردی کے زور پر غریبوں سے رعب اور ڈر پیدا کر کے لوٹ مار کا پروانہ ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ موجودہ آئی جی پنجاب کے دور میں کرپشن اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہو چکا ہے، محکمہ کو چلانے کی ذمہ داری سرکار کی بجائے عوام کے سر پرڈال دی گئی ہے، ایک طرف کرپشنز اور ویلفئیر کے ترجیحی بنیادوں پر الجھے معاملات چند مہینوں میں حل کرنے کی مثال ہے اور دوسری طر ف محکمہ میں جاری کرپشن اور رشوت ستانی کی بھی مثال نہیں ملتی۔ آئی جی محکمہ کی ترجمانی کرتے ہوئے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے دعویدار تو آپ ہو سکتے ہیں لیکن فورس میں ایسے ملازم اور افسر جو کرپٹ ہیں، انکی ترجمانی کر کے اپنا بھرم نہ کھولیں۔ جو کرپٹ نہیں وہ بھی کرپٹ افسر اور ملازموں کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔ کرپشن کی لعنت کو ختم کرنا لازم ملزوم اور رشوت ستانی کا بازار گرم رکھنے والوں کو بھی بے نقاب کرنا ضروی ہو چکا ہے۔ بوڑھے چچا حوالدار بھی یہی کہتا ہے کہ جیسے انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے ویسے ہی احتساب ہو تا دکھائی دینا چاہئے۔ وہ مثال ایک ایس پی کے خلاف کرپشن کے معاملات کی انکوائری کی دے رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک سی ایس ایس پی پولیس آفیسر کی کرپشن معاملات میں انکوائری ہوئی۔ کرپشن ثابت ہوگئی۔ تفتیشی نے اس انکوائری کی رپورٹ لکھنا چاہی مگر اسے یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ رپورٹ کو کسی صورت تحریری شکل میں نہیں لانا۔ مقصد صاف ظاہر ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ مدا ہی مکاؤ تے مٹی پاؤ۔ آئی جی صاحب! محکمہ میں اندرونی بگاڑ کی جانب بھی توجہ دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا معاشرتی اصلاح کے لیے فورس کو سرگرم کرنا ورنہ کرپشن کی دیمک یونہی چاٹتی رہے گی اور غریب انصاف کے لیے سسکتا رہے گا۔
تبصرے بند ہیں.