کرکٹ ”ہمیں یہ بھی تھا غنیمت جو کوئی شمار ہوتا“

63

پاکستانی قوم کو 2 طبقوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور یہی وہ دو طبقے ہیں جو قوم کو ہمیشہ سب سے زیادہ مایوس کرتے ہیں لیکن پھر بھی عوام ان کی اندھی محبت اور اندھی تقلید سے باز نہیں آتے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ ہمارے سیاستدان اور کر کٹرز ہیں یہ دونوں ہی سرکاری خزانے سے شاہانہ اور پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں اور جب قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ بیچ منجدھار ہمیں تنہا چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود قوم کے اندر ان کی پرستش یا Hero Worship میں کمی نہیں آئی بقول شاعر

اب تک دل وابستہ کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کیلئے آ

آج کے کالم کا موضوع تو میاں نواز شریف کی واپسی تھا لیکن افغانستان کے ہاتھوں کرکٹ ورلڈ کپ میچ میں ذلت آمیز شکست کے بعد ہم نے اپنا روئے قلم وہاں سے ہٹا کر کرکٹ پر مرتکز کر دیا تا کہ اس کے کلیدی پہلوؤں پر یہ بات کی جا سکے۔ 2007ء کے ورلڈ کپ میں جب پاکستان آئرلینڈ جیسی گمنام زمانہ ٹیم کے سامنے 132 رنز سکور کر کے ہارا تو اس میں ٹاپ سکورر ہمارا کوئی کھلاڑی نہیں بلکہ 25 رنز Extras کے تھے جو آئرلینڈ کے اناڑی کھلاڑیوں کی وجہ سے ہمیں دیئے گئے تھے یہ ہمارے آج کے کرتا دھرتا انضمام الحق کا کیرئیر کا آخری میچ تھا اور جب وہ گراؤنڈ سے باہر آرہے تھے تو ان کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ آئرلینڈ ٹیم کے پلیئرز میں زیادہ تر غیر پروفیشنل تھے جو اپنے اپنے کاموں سے چھٹیاں  لے کر ٹورنامنٹ کھیلنے آئے تھے اور پاکستان کو ہرا کر اپنی اپنی چھٹیوں میں Extension کی درخواستیں بھیج رہے تھے۔ اس ڈراؤنے خواب کو پاکستان نے یہ سمجھ کر بھولنے کی کوشش کی کہ ”داغ چلا جائے گا اور یہ وقت پھر نہیں آئے گا“ مگر وہ وقت پھر آ گیا اور ہم افغانستان کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گئے۔

آج کی کرکٹ کو عالمی واقعات اور سیاست سے الگ رکھنا ممکن نہیں رکھا۔ پاکستان نے قبل ازیں جو میچ جیتا اس میں رضوان نے اپنی فتح کو غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے نام کر دیا۔ اس سے اگلا میچ پاکستان انڈیا سے بری طرح ہار گیا۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم  نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ شکر ہے پاکستان یہ میچ ہار گیا ورنہ جیت کی صورت میں انہوں نے یہ فتح حماس کے دہشت گردوں کے نام کر دینا تھی۔ افغانستان کے کھلاڑی رحمت شاہ نے اپنی جیت کو پاکستان سے نکالے گئے افغان مہاجرین کے نام کر دیا ہے اور عالمی برادری اس پر پاکستان کو زیادتی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں گزشتہ 40 سال میں سوائے پاکستان کے دنیا کے ہر ملک نے اپنے ہاں پناہ دینے سے انکار کیا ہے اور افغان کھلاڑی کا یہ بیان احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔

کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس پر بات کرنے سے پہلے یہ ملحوظ خاطر رہے کہ کرکٹ کی وجہ سے ہمارے پرانے روایتی کھیل دم توڑ چکے ہیں ہاکی کو پاکستان کا قومی کھیل سمجھا جاتا تھا اسی طرح فٹ بال کبڈی اور اتھلیٹکس میں عدم سرپرستی کی وجہ سے پاکستان کا بین الاقوامی امیج غائب ہے پاکستان سپورٹس بورڈ کا سارا فنڈ کرکٹ میں جھونک دیا جاتا ہے باقی سارے کھیل فنڈز میں کمی کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں عوامی مقبولیت کی وجہ سے سارا زور کر کٹ پر ہوتا ہے۔ کرکٹ سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کے پاکستان میں 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والے کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے جس کی ساری مقبولیت اور میر ٹ کی بنیاد کرکٹ تھی۔ اس وقت بھی ہماری موجودہ نگران کابینہ میں ایک اور کرکٹر صاحب وزیر بین الصوبائی ہم آہنگی ہیں حالانکہ ان کی کرکٹ پر فارمنس ہمیشہ متنازع رہی ہے۔

پاکستانی قوم کے کرکٹ سے اٹوٹ اور لازوال عشق کے پیچھے حالات اور حقائق سے فرار کی ایک نفسیاتی وجہ ہے۔ جب عوام سیاستدانوں کی پے در پے ناکامیوں اور معاشی ناانصافی کے ہاتھوں تنگ ہوتے ہیں تو عارضی طور پر کرکٹ میچ انہیں ایک جائے پناہ لگتا ہے جہاں وہ اپنے کھلاڑیوں کو چوکے چھکے یا مخالفین کی وکٹیں اڑاتے دیکھ کر اپنی محرومیوں کا مداوا سمجھتے ہیں اور وقتی طور پر حوادث زمانہ کی سختی کو بھول جاتے ہیں یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک چر سی نشے کا سگریٹ پی کر ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے۔ کرکٹ کے دیوانے اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے چوکوں چھکوں کو سسٹم کی ناانصافیوں پر ضرب کاری سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر یہ لطف اندوزی کا اثر اتنا ہی عارضی ہے جیسے چرس کا سگریٹ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ایک صحتمند تفریح ہوتی ہے جبکہ نشہ زہر ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے موجودہ بیٹسمین ورلڈ رینکنگ میں ٹاپ لائن پر ہیں مگر یہ ہمیں میچ نہیں جتوا سکتے۔ مثال کے طور پر افغانستان کے خلاف میچ میں اجتماعی کارکردگی کے بجائے کپتان سمیت کچھ کھلاڑیوں نے انفرادی کھیل کے جوہر دکھانے کی کوشش میں ٹیم کو ایک لمبا سکور نہیں کرنے دیا اور خود نمائی کے چکر میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا جب کا افغانستان نے بھر پورفائدہ اٹھایا۔

اگر پاکستان میں کرکٹ بورڈ کی تشکیل نو کی جائے اور چیئرمین کے انتخاب میں سیاسی پارٹیاں غیرجانبدار ہو جائیں تو شاید اس سے ہماری قومی کرکٹ بحال ہو جائے۔ جب اوپر سے سیاست شروع ہوتی ہے تو وہ سلیکشن کے عمل کو متاثر کرتی ہے میرٹ کا قتل ہوتا ہے اور بہت سا قیمتی ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں کرکٹ کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے جو گلی محلوں میں رُل رُل کر ضائع ہو رہا ہے جب تک کوئی سفارش نہ ہو نئے کھلاڑی کیلئے اوپر آنا یا موقع ملنا ممکن نہیں۔ اس سسٹم کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ کرکٹ میں کھلاڑیوں کو ملنے والا معاوضہ دنیا کے اعلیٰ ترین پے پیکیج کے برابر ہے حال ہی میں معاوضوں میں 200 فیصد اضافہ کیا گیا ہے لیکن کار کردگی وہیں کی وہیں ہے۔

افغانستان کے خلاف میچ میں ضرورت سے زیادہ احتیاط اور ڈر کر دفاعی کھیل کھیلنے کی حکمت عملی نے پاکستان کو بڑا سکور کرنے سے روکے رکھا یہ سمجھتے تھے کہ 282 کا ہدف بہت بڑا سکور ہے لیکن آج کی کرکٹ اتنی تیز رفتار ہو چکی ہے کہ یہ سکور کچھ بھی نہیں تھا۔ جو انہوں نے بآسانی پورا کر دیا۔ افغان طالبان حکومت کے پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے افغان اور پاکستانی عوام ایک دوسرے کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں اس لئے عوامی سوچ یہ تھی کہ انڈیا سے شکست گوارا ہے مگر طالبان ٹیم کو ہرانا ناگزیر ہے مگر حقیقت بر عکس ثابت ہوئی۔

تبصرے بند ہیں.