جب سے شعور کی آنکھ کھولی اخبار کی شہ سرخیوں میں ایک تسلسل دیکھا۔ شہید نوجوان فلسطینیوں کے جنازے،پرعزم چہروں پر غم سے بڑھ کر استقلال، ایمان کی لو، اقصیٰ اور قدس کے نعرے اور تکبیریں! بلڈوزروں سے گھر گرا کر فلسطینی گھرانوں کی دربدری معمول ہوتا تھا۔ مسلم آبادیوں کو خیمہ بستیوں میں ٹھونس کر ان کی آبائی زمینوں، جائیدادوں پر قبضہ یہودیوں کا ”پیدائشی حق“ تھا! نائن الیون نے مغرب کے مہذب دیوتاؤں کے چہروں کے نقاب نوچ ڈالے۔ خوبصورت اصطلاحات میں چھپا تہہ در تہہ جھوٹ کھل کر سامنے آ گیا۔ آزادی، مساوات، حقوقِ انسانی، جنیوا کنونشنز، یو این کی قراردادیں! اسرائیل کے دفاع اور تحفظ کے لیے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالنی۔اقوام متحدہ کی 75سال سے کشمیر اور فلسطین پر سسکتی قراردادوں کو دیمک چاٹ گئی۔
1948 ء میں یو این نے قرارداد پاس کی تھی، مہاجر کیے جانے والے فلسطینیوں کی واپسی، جائیدادوں کی بحالی اور مالی ازالے کی۔ تین نسلیں رزقِ خاک ہوگئیں۔افغانستان، عراق پر حملوں اور اب غزہ پر جنگی جرائم کا بھرپور ارتکاب مسلمہ قوانین کو روندتے ہوئے جاری وساری ہے۔ اسفل سافلین، اسرائیل 1400ہلاکتوں کے بدلے 23 لاکھ کی آبادی کو ملیامیٹ کر رہا ہے۔ اجتماعی سزا یوں برسانا جینوا کنونشنز کے آرٹیکل 23کے مطابق بھی ممنوع ہے۔ پینے کا پانی، بجلی، خوراک، ادویات کی بندش کے مجرم اسرائیل نے ہسپتالوں سمیت غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔ میڈیا آفس تباہ کیے تاکہ دنیا تک جنگی جرائم،لاشوں کے انبار اور فلسطینی ہولو کاسٹ نہ پہنچ پائے۔جنگلوں میں درندے منہ چھپائے پھر رہے ہیں اس وحشت پر۔ اسرائیلی فضائیہ مسلسل میزائل برسا رہی ہے۔ ان کے بڑے اخبار ’ہرٹز‘ کا اعتراف ہے کہ ’ہمیں دنیا کی مشکل ترین قوم کا سامنا ہے۔‘ تکبیریں بلند ہوتی ہیں۔ جوان ملبے سے زخمی، لاشیں اٹھانے دیوانہ وار دوڑے چلے آتے ہیں اپنی جانوں سے بے پروا، گویا میزائل نہیں پھٹ رہے یونہی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں۔ الکرامہ کے علاقے میں (10اکتوبر) دو گھنٹوں میں 100بم مارے گئے جب لوگ گھروں کے اندر تھے۔ ایک خاندان کے 44 افراد شہید ہوئے جس میں 16 بچے تھے۔ دو سال تا 14 سال عمر کے۔دو ہفتوں سے جاری بمباریوں کی یہ ایک جھلک ہے۔
عالمی قوانین اور یو این کنونشن کے تحت ممنوعہ کیمیائی مواد فاسفورس بم استعمال کیے۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔ فاسفورس کا ہلاکت خیز مواد، انسانی کھال کو ہڈیوں تک جلاکر رکھ دیتا ہے۔ درجہ حرارت 800ڈگری سنٹی گریڈ پر جلتا ہے جس سے دھات بھی پگھل جائے۔2008-2009کی 22روزہ جنگ میں اسرائیل نے وسیع پیمانے پر اس کا استعمال کیا۔ اس جنگ میں اسرائیل کا وہ چہرہ دیکھا جاسکتا ہے جو رعونت، تکبر اور ڈھٹائی، درندگی میں انبیاء کے قتل تک کا مرتکب رہا۔ اگرچہ فاسفورس کا استعمال پڑھنے سننے والے کے لیے روح فرسا ہے۔ مگر یاد رکھیے کہ شہید کا بدن اس تکلیف سے مامون ہے۔ حدیث کے مطابق: ’شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
فلسطینیوں کی 1948ء سے آج تک اقصیٰ کے تحفظ اور فلسطین،انبیاءؑ وصحابہ کرامؓ کے قدموں اور قبروں کی امین سرزمین کے ایک انچ سے دست بردار نہ ہونے کی استقامت لازوال ہے۔ ان کی طاقت کا راز عقیدے کی پختگی، اللہ
رسول پر پختہ ایمان اور بشارتوں سے نتھی ہے، جسے دنیا سمجھنے سے قاصر ہے۔
اسرائیلی فوج غزہ کے قریب حماس پر حملے کے لیے 3لاکھ فوجی چڑھا لایاہے۔ امریکا نے دو بحری بیڑے اسرائیل بھیجے ہیں! (ہوائی جہازوں، اسلحے سے لدے) یہ ساری جدید ترین عسکری قوت اس لیے لائی جا رہی ہے کہ اسرائیل کے مطابق: حماس، اس جنگ کے خاتمے کے بعد عسکری صلاحیت سے مکمل تہی دامن ہو جائے۔ حماس کی فوجی قوت کیا ہے جو یہ دو ایٹمی سپر طاقتیں ختم کرنے آ رہی ہیں؟ چند ہزار راکٹ کلاشنکوفیں، موٹرسائیکل، ان کے جناتی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے مقابل جو بے پناہ ہائی ٹیک ہیں! ان کے سستے کوڑیوں کے مول راکٹوں کو مارنے والا آئرن ڈوم کا ایک راکٹ 40ہزار ڈالر کا ہے۔اس جنگ میں اسرائیل کا ایک دن کا خرچ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ ابتدائی 4دن ہی میں 6ارب 80 کروڑ ڈالر اڑ گئے۔ چند ہزار حماس راکٹوں، ابابیلی پرندوں کے مقابل۔ تجزیہ کار حیران ہوئے کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس کلاشنکوف کے سوا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ ان کے ہاتھوں غزہ کنٹرول کرنے والے ملٹری ہیڈکوارٹر، ڈویژن کا سقوط ہوگیا۔ 18سال کے ہر یہودی مرد عورت پر 32ماہ فوجی سروس لازم ہے۔ ہر یہودی جنگجو ہے!
فلسطینیوں کی قوت کا راز نبی صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبریوں اور کلمہ طیبہ کی لازوال سچائی میں ہے۔ ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’روز محشر کچھ لوگ آئیں گے جن کے ایمان غیرمعمولی اور بے مثل ہوں گے۔ جس کی روشنی ان کے سینوں اور دائیں ہاتھ سے پھوٹ رہی ہوگی۔ ان سے کہا جائے گا۔ خوشخبری ہو آج تمہارے لیے۔ اسلام علیکم…… سلامتی اور خیر ہو تمہارے لیے۔ داخل ہو جاؤ جنت میں ہمیشہ کے لیے۔ فرشتے اور انبیاء، اللہ کی ان سے محبت پر رشک کریں گے۔‘ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہم میں سے اور تم میں سے نہیں۔ تم میرے صحابی ہو مگر وہ میرے محبوب! یہ تمہارے بعد آئیں گے اور دیکھیں گے کہ اللہ کی کتاب لوگوں نے چھوڑ رکھی ہے۔ پسِ پشت ڈال دی ہے۔ بے وقعت کر دی ہے اور سنت چھوڑ دی گئی ہے۔ یہ لوگ کتاب اللہ اور سنت تھام لیں گے۔ اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ یہ اسے پڑھیں گے اور لوگوں کو پڑھائیں گے۔ یہ اس راستے میں وہ سزا اور آزمائشیں اٹھائیں گے جو اے صحابہؓ تم نے نہیں اٹھائیں۔ اس سے بھی شدید تر۔ ان میں سے ایک کا ایمان تمہارے میں سے 40 کے برابر ہوگا۔ ان میں سے ایک کی شہادت تم میں سے 40 کے برابر ہوگی۔ تمہیں راہِ حق میں ایک مددگار میسر ہے۔ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اور انہیں نہ ہوگا۔ وہ ہر جا ظالم حکمرانوں میں گھرے ہوں گے۔ یہ قدس اور اس کے گرد ونواح میں ہوں گے۔ اللہ کی مدد انہیں پہنچے گی اور اس کا اعزاز انہیں حاصل ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اللہ انہیں فتح عطا فرما۔ اور انہیں جنت میں میرا قرب عطا فرما۔‘ (مسند احمد)
ان کمزور ترین نہتے سرفروشوں نے اسرائیل کے8شہروں میں معجزانہ جنگ چھیڑی۔ غیرمعمولی فتوحات حاصل کرکے شہادتیں پاکر رب تعالیٰ کی رضا اور منزل مراد پا گئے۔ دنیائے کفر دہل کر رہ گئی۔ اسرائیلی سراسیمہ ہوکر دھڑادھڑ ایئرپورٹ کی طرف دوڑے ’ارضِ موعود‘ چھوڑکر! لاالہ الااللہ۔
اسرائیل کے قیام کی تاریخ سے آج تک کی خونچکاں داستان کھل کر ضمیرِ عالم کے سامنے سوال بن کر آ کھڑی ہوئی ہے کہ بدترین استعماریت کے نمایندوں اور ان کے غلاموں، متعصب نسل پرستوں کے سوا ہر طرف ایک تہلکہ برپا ہوگیا ہے۔ راحیل شریف کی سربراہی میں امت کے لیے بنائی فوج کہاں ہے؟ مظلومیت کی آخری حد پر کھڑا کم عمر فلسطینی بچہ (پورا خاندان شہید ہوچکا)، ہاتھ پھیلائے عربوں کو، امت کو پکار رہا ہے۔ وہ نہیں جانتا، اس کے شام میں ایسے ہی بھائی بہن روتے پکارتے رہ گئے۔ امت کو موبائلوں پر دیکھنے کو اور بہت کچھ ہے جس نے ان کے دل پتھرا دیے ہیں۔
مغرب کی نگرانی میں سربوں نے بوسنیا، کوسوا میں یہی قیامت برپا کی تھی۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، کینیڈا کی قیادت اتنی بڑی فلسطینی آبادی پر جنگی جرائم کے ارتکاب کو برحق قرار دے رہی ہے۔ یہ وہی قومیں ہیں جنہوں نے سیاہ فام غلاموں، مقامی آبادیوں (امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ نے) کو عین فلسطینیوں کی طرح اجاڑا، قتلِ عام کیا، زمینوں، وسائل پر قبضہ کیا۔
مسلمان کے لیے نصابی کتاب لاریب قرآن ہے۔ غزوہئ احد اس دور کی ٹوٹ پڑنے والی آزمائشوں میں عظیم رہنمائی کا حامل سنگ میل ہے۔ اٰل عمران میں نبیئ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ پر آنے والی شدید آزمائش پر اہل ایمان کے لیے تسلی تشفی بھی ہے اور رب تعالیٰ کی سنت بھی واضح ہے: دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے فریقِ مخالف کو بھی لگ چکی ہے…..۔(اٰل عمران: 139-140)
Prev Post
تبصرے بند ہیں.