جبرکی چکی چلتی رہی اور قہر کی بدلی برستی رہی اس کے باوجود آخری مرحلے میں وہی سرخرو اور سرفراز ہوتا رہا۔ معاملات کی پیچیدگی اور حالات کی سختی نے نواز شریف کو اک ہلا مارنے والی آزمائش مسلسل میں مبتلا کیے رکھا۔ تین بار طاقت نے سازش کا سہارا لیکر اس کی سیاست ختم کرنا چاہی لیکن حتمی تجزیے میں جیت نواز شریف ہی کے حصے میں آئی۔پارلیمانی بالادستی اور عوامی حکمرانی سے خوف کھانے والے اعلیٰ سرکاری عہدیدار آج فسانہ ہو چکے مگر نواز شریف سیاست کا ایک اور باب رقم کرنے چلا ہے۔یہ 28 جولائی 2017 کی تپتی اور جھلستی دوپہر تھی۔ عدل کی سب سے اونچی بارگاہ سے اک جانبدارانہ، من پسندانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ صادر ہوا اور عوام کے منتخب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیدیا گیا۔ وہ دن اور آج کی رات پھر پاکستان کو سیاسی استحکام اور قرار نصیب نہ ہوا۔ پاکستان ترکی نہ ہوا کہ عوام سڑکوں پر آتے اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھما دیتے۔ ہمارا ڈھلوان کا سفر جاری رہا، پستی کے زینے طے ہوتے رہے اور زوال و ادبا رکی آخری حدوں کو ہم نے چھو لیا۔ گزشتہ چار سال کے دوران نواز شریف کی سیاسی زندگانی کی منڈیر پر وہ کالی شام رہی کہ بس توبہ بھلی۔ مشکلات کا دریا کوئی گھاٹی نہیں ہوتی کہ پوری قوت سے نواز شریف چھلانگ لگاتے اور دوسرے کنارے جا اترتے۔سازشی جنگل چٹیل میدان نہیں ہوتا کہ نواز شریف اسے تنہا عبور کر گزرتے۔ سیاسی فارمولائی فکر کی یہی تنگنائی رہی کہ پاکستان آج بھی جمود و تعطل اور انحطاط و تنزل میں گھرا ہوا ہے۔
دیکھئے اب دو جمع دو برابر چار کی طرح حقیقت منکشف ہو چکی کہ سیاستدانوں کے بغیر ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ پارلیمانی جمہوری نظام کے بغیر پاکستان اور اس کے عوام ایک گہرے اور اندھے کنویں میں گھرے رہیں گے۔ اعلیٰ سرکاری ملازمین کی سازشیں، فتوے اور فیصلے ان کے اپنے کام تو آ سکتے ہیں لیکن قومی زندگی کا سفر کھوٹا کرتا رہیں گے۔ نواز شریف کی چوتھی بار واپسی میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں اور بڑے بڑے نام اور اونچے اونچے مقام والوں کے لیے عبرت پو شیدہ ہے۔ آنے والے مورخ کے پاس بے شمار سیاسی واقعات امانت پڑے ہیں جو آئندہ نسلوں کے لیے ٹھیک ٹھیک بیان کرے گا اور اس میں نواز شریف پر عظمت ٹوٹ ٹوٹ کے برستی رہے گی۔ سازشیوں، سامریوں اور جادوگروں کے بھیانک چہرے اور زہر آلود کردار بھی نسل در نسل منتقل ہوتے رہیں گے۔ بس بہت ہوچکا اور اب سیاست کو ہموار سطح سے آگے بڑھنا چاہئے اور عوام کو حق ملنا چاہئے کہ وہ بغیر خوف اور بلا جھجھک اپنے نمائندے منتخب کریں۔ گو سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو باقی اور برقرار رکھ کر پارلیمان کی برتری پر مہر لگادی ہے لیکن ابھی آگے سفر بڑا لمبا ہے۔ رات تاریک ہے اور عوامی نمائندوں کے پاس طاقت کی کوئی مشعل بھی نہیں کہ وہ بے دھڑک اپنا سیاسی سفر جاری رکھ سکیں۔
آئیے ذرا آج سیاسی تاریخ پر اجمالی سی نگاہ ڈالتے ہیں۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان چارسال بعد ہی 1951ء میں قتل کر دیئے گئے۔ خواجہ ناظم الدین کو محض دو سال بعد ہی 1953ء میں برطرف کر دیا گیا۔ محمد علی بوگرہ بھی گرتے پڑتے دو سال ہی نکال پائے اور 1955ء میں ان سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ چودھری محمد علی با مشکل ایک سال ہی نکال پائے کہ 1956ء میں ان سے بھی استعفیٰ طلب کر لیا گیا۔ حسین سہروردی بھی ایک سال چلے اور 1957ء میں انہیں بھی استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ آئی آئی چندریگر چند ماہ کے بعد 1957ء میں ہی زبردستی گھر بھیج دیئے گئے۔ فیروز خان نون کابھی ایک سال بعد 1958ء میں اقتدار ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ہانکے پکارے 1973ء سے 1977ء تک دھوپ چھاؤں کے شام و سحر سے گزرے۔ پھر محمد خان جونیجو کو تین سال بعد 1988ء میں زبردستی سندھڑی کا راستہ دکھایا گیا۔ اس کے دو سال بعد 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکو مت برطرف کر دی گئی۔پھر عدالتی بحالی کے باوجود نواز شریف 1993ء میں زبردستی استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیئے گئے۔ تین سال بعد پھر 1996ء میں بے نظیر برطرف کردی گئیں۔ پھر 1999ء میں دوبارہ نواز شریف کی حکومت کا تخت الٹ دیا گیا۔ ظفر اللہ جمالی سے بھی چار سال بعد دل اوب گیا تو 2004ء میں ان سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ آگے چل کر محض چار سال بعد 2012ء میں یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے برطرف کر دیا۔پھر چارسال بعد اب 2017ء میں نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دے دیا۔ سو سوالوں کا ایک سوال کہ یہ سب کے سب وزرائے اعظم کیا تصادم کی راہ پر گامزن تھے؟یا پھر کوئی معشوق تھااس پردہ زنگاری میں؟
مسلسل اگر نحوست جمہوریت کے تعاقب میں رہی اور بدقسمتی پیہم پنجے مارتی رہی تو آخر اس کا سبب کیا ہے؟ تمام وزرائے اعظم کو اگر یکے بعد دیگرے گھر کی راہ دکھائی جاتی رہی تواس اسرار کا راز کیا ہے؟ آخر وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس کے پاس طاقت و قوت تو ہے مگر سیاست وفراست نہیں؟ پاکستان میں سیاسی سفینہ آخر کیوں سمندر کا سینہ چیر کر ساحل پر اتر نہ سکا؟ اسی سوال کو دوسرے زاویے سے مرصع کر کے دیکھنا چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے دستور سے انحراف پر گرفت کرنے کی کسی جری یا جانباز نے جرأت نہیں جٹائی؟ دن کو دن اور رات کو رات اس لئے بھی نہیں کہا گیا کہ بڑے بڑے شیردل اس خیال سے ہی کانپے جاتے رہے مبادا زنجیر و تعزیر اور قید و قفس ہی ہمارا مقدر نہ بن جائے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ طاقت کے خوف سے مصلحت پسند سیاستدانوں نے آخر کیوں چپ کا طویل روزہ رکھے رکھا؟سکوت سے اشتغال برتنے والے شائقین بھی چیختے رہے کہ ہائے وائے تصادم نہیں تعاون کا راستہ اختیار کرو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ جسم و جاں مصیبت میں مبتلا ہو جائے۔ پھر کون تھا جو جادوگروں کے مقابل مقتل میں نکلتا۔۔۔کس کا ہاتھ اتنا قوی تھا کہ ان کے آہنی پنجوں پرپڑتا؟
اف! یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا تھا
کیامسافرتھے! جو اس راہ گزر سے گزرے
آسماں کی نیلی بوڑھی آنکھوں نے دیکھا کہ نواز شریف ہی تھا جو اس راہگزر سے گزرا۔ جادوگروں کی فسوں سازی اور سامریوں کی موشگافی سے سیاسی حکام اور پارلیمانی نظام کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ایسی خشتِ خم اورجام جم پر تو نابینا بینا ہو جاتے۔ بہرے بولنے لگتے، گونگوں کی چیخوں سے دنیا دہل جاتی اور بوڑھوں کے ہاتھ شیروں کے پنجوں کی طرح طاقتور ہو جاتے۔
تبصرے بند ہیں.