ملکہ کوہسار مری اور قبضہ مافیا

111

پنجاب کے ضلع راولپنڈی کا ایک صحت افزا مقام مری ہے، جو راولپنڈی شہر سے تقریباً 39 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مری کی سطح سمندر سے بلندی7500 فٹ اور کل رقبہ 1821مربع کلومیٹر ہے۔ مری ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چراگاہ یا گھاس کے میدان کے ہیں، ترک جب فاتح بن کر آئے تو ہزارہ اور مری کی پہاڑیاں ان کی اقامت گاہ قرار پائیں۔ مری میں تقسیم سے پہلے دو گوردوارے، دو مندر اور چار چرچ بھی ہوا کرتے تھے، اس سے بہت پہلے یہ جوگیوں کا مسکن بھی رہا۔ پتریاٹہ کے قریب زمانہ قدیم کی تراشیدہ چٹانیں اب بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق بدھ مت کے دورِ عروج سے ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ پانڈو اپنے ایام ِ جلا وطنی میں جب کشمیر سے واپس آ رہے تھے اور جس جگہ ٹھہرے تھے وہ جگہ آج بھی پنج پانڈو کے نام سے کشمیر پوائنٹ کی پہاڑی پر واقع ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یہاں ہندوؤں کا سالانہ میلہ بھی اکتوبر میں لگتا تھا جس میں ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں دور دراز سے شرکت کے لیے آتے تھے۔ مری کی قدیم تاریخ کشمیر سے جڑی ہے۔ پھر ایک ہزار سال پہلے جب ترک النسل گکھڑ سلطان کائی گوہر پوٹھوہار میں مقیم ہوا تو اس نے مری کا علاقہ فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، جس کی سرحدیں اس وقت سندھ سے لے کر دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وقت مری میں گھنے جنگلات تھے جن میں مختلف قسم کے خونخوار جانوروں کی بہتات تھی شاید یہی وجہ تھی کہ تب یہاں آبادی بھی برائے نام ہی تھی۔ مغل عہد میں یہ علاقہ نیم خود مختار رہا، سکھ عہد میں سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ نے 17 ویں صدی کے اواخر میں راولپنڈی کو گکھڑوں سے چھین لیا اور یوں عملاً یہاں ملکھا سنگھ کی حکومت قائم ہو گئی لیکن عملی طور پر مری، مانسہرہ اور ہری پور کے قبائل خود مختار ہی رہے۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے1820 میں راولپنڈی کو اپنی عملداری میں لیا تو اس کے جرنیل ہری سنگھ نے مری اور مانسہرہ کے قبائل پر دس سال میں دو بار لشکر کشی کی۔ ایک مقامی روایت ہے کہ انگریزوں نے مری کا ہل سٹیشن راجگان سے 1940روپے کے عوض خریدا۔ مری میں اس وقت ایک الگ ہی کشش تھی، یہاں پہنچ کر انسان قدرت کو اپنے قدموں تلے محسوس کرتے تھے۔ مری کے سرکاری دفاتر سنی بنک کے علاقے میں 1853میں بنائے گئے۔ 1857میں یہاں چرچ بنایا گیا، مال روڈ بھی 1860 میں بنایا گیا جس پر چہل قدمی کی اجازت شروع میں صرف انگریزوں کو دی گئی۔ اس زمانے میں مال روڈ کے صرف ایک طرف عمارات بنانے کی اجازت دی گئی تا کہ سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندور ہو سکیں۔ لیکن اب اس شہر کا قدرتی حسن جیسے ماند پڑنے لگا ہے، یہاں کے جنگلات سے درخت اور سبزہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال یہ ہرا بھرا شہر اب آلودگی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جہاں پر درخت، پانی اور زمین سب قبضہ مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔ طاقت ور لوگوں کی جانب سے مظلوموں کی زمین اور املاک پر قبضے کی روایت بہت پرانی ہے۔ زمینوں پر نا حق اور نا جائز قبضے کا یہ سلسلہ یہاں آج بھی جاری ہے، آج بھی طاقت ور افراد مری کے جنگلات کی سرکاری اراضی پر نا جائز قبضہ کرتے ہوئے کمرشل تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں آپ کو اب سبزے کے بجائے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور کنکریٹ کے پہاڑ دیکھنے کو ملتے ہیں، یہاں کے جنگلات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، کئی ہزار کنال اراضی پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں۔ کئی مقامات پر سرکاری اور جنگلات کی زمین پر گھر اور سڑکیں بنائی جا چکی ہیں، یہاں تک کہ نکاسی آب کے لیے بنائے گئے سرکاری نالوں پر بھی بلند و بالا عمارات تعمیر کی جا چکی ہیں جس کے باعث برساتی نالوں کی صفائی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے، شہر میں نکاسی آب کا بیشتر نظام برساتی نالوں سے منسلک ہے جس سے ان برسانی نالوں میں کچرا اور مٹی جمع ہو جاتی ہے اور پانی کے دباؤ پر برساتی نالے بھر جاتے ہیں، جس سے قدرتی ماحول اور سیاحت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کی ہزاروں ایکڑ زمین یہاں کے بااثر افراد کے قبضے میں ہے جب کہ مری کی انتظامیہ یہاں مکمل طور پر بے بسی کی مثال بنی نظر آتی ہے۔ پورے پاکستان کی طرح مری میں بھی ایک طویل عرصے سے قبضہ مافیا اپنے پنجے پھیلا رہا ہے۔ مری کے خوبصورت جنگلات کا اس قدر تیزی سے خاتمہ خطرناک حد تک ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ ماحولیا تی تبدیلوں کے باعث جہاں پوری دنیا میں جنگلات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، وہیں پاکستان میں اس پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے اور نہ ہی آگاہی۔ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ 33 فیصد تھا جو کہ اب ایک فیصد تک رہ گیا ہے۔ ماحول کا بگاڑ جنگلات کی کٹائی اور انسانی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے سبب تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ زمین وسعتوں کی جگہ ہے، اتنی وسعتیں کہ ابھی کئی علاقے انسانی قدموں تلے نہیں آئے لیکن حجم ہی سب کچھ نہیں ہوتا، اس وسعتوں کی حامل زمین کا سب سے قیمتی جوہر ماحول ہے جو دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہے۔ کراہ ارض پر موجود جنگلی حیات کے ٹھکانے ختم ہو رہے ہیں۔ زمین ہزاروں برسوں کے دوران کئی بار آفات بھگت چکی ہے لیکن انسانی تاریخ کی یہ پہلی تباہی ہے جس کی خود انسان پرورش کر رہا ہے۔ شہر میں بے ہنگم تعمیرات، ناجائز قبضے اور تجاوزات نے مری شہر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکومتی انتظامیہ نے قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کے بجائے دانستاً چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ بقول شاعر
جو پھر سے میری قوم کو غیرت کا سبق دے
آ پھر سے حفیظ ایسے ترانے کے لیے آ
مری ہو یا پاکستان کا کوئی بھی شہر تجاوزات اور سرکاری اراضی پر نا حق قبضے کسی بھی معاشرے کے ماتھے کا کلنک ہوتے ہیں۔ قبضہ مافیا کسی بھی علاقے کی خوبصورتی اور وسائل کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ان تمام تجاوزات اور قبضوں کا ذمہ دار کون ہے؟ ہزاروں لوگ ان قبضوں اور تجاوزات کی روک تھام کے لیے سرکار بھرتی کرتی ہے، اگر وہ تجاوزات اور قبضوں کی بروقت روک تھام کے لیے کچھ کر ہی نہیں سکتے تو پھر کیوں قوم کے ٹیکس کا پیسہ ان ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔۔۔

تبصرے بند ہیں.