کیا یہ درست ہے کہ ”فضا میں کچھ بھی نہ چھانے کا خوف طاری ہے“؟ بے یقینی کا گراف اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں جبریل کے پر بھی جلتے ہیں۔ کوئی تو ہے جو یہ تاثر انتہائی سائنسی، منظم اور غیر محسوس انداز میں قوم کی رگوں میں اتار رہا ہے کہ ”پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے“۔ یہ بات کون عام کر رہا ہے کہ ”پاکستان کے تمام سیاستدان اپنی اپنی قبروں کے دہانے پر بیٹھے گورکنوں کے منتظر ہیں جو آئیں اور انہیں دفنانے کا فریضہ پورا کریں“۔ یہ بات عام کیسے ہو رہی ہے کہ ”صرف ایک ہی ایسی سیاسی دکان ہے جہاں سے زندگی کی ہر خواہش کی تکمیل اور ہر خواب کی تعبیر مل جائے گی“۔ بالکل اُسی طرح جیسے ماضی میں کسی وبائی بیماری کے نتیجے میں ہر شہر کے ہر محلے سے آٹھ آٹھ دس دس جنازے اکھٹے اٹھتے تھے تو صرف کفن کی دکانوں اور گورکنوں کے ڈیروں پر رش ہوتا تھا۔یعنی ایک ہی مسیحا ہے جو مردہ قوم کو زندہ بھی کرے گا اور انہیں زندہ رہنے کا حق بھی دے گا۔یہ افواہ پھیلانے والے کون ہیں؟جو پاکستان کے سیاسی بیک اپ کو ختم کرنے کے درپہ ہیں اگرخدا نخواستہ اس کھیل میں یہ مسیحا مصلوب ہو گیا اور دوسری کسی جماعت پرعوام کا اعتماد بھی نہ رہا تو پھر جس انسانی المیے سے ہم دو چار ہو سکتے ہیں اُس کا تصور شاید ماضی کے کسی تاریخ دان نے چشمِ تصور سے بھی نہ دیکھا ہوگا۔
بلند و بانگ دعوے میدان جنگ میں دشمن پر ہیبت طاری کرنے کے کام آنے کا امکان تو ہے لیکن سیاست میں کوئی تشہیر اُتنی دیر تک موثر ثابت نہیں ہو سکتی جب تک وہ حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ صرف مشہوری تو قیامت سے ایک دن پہلے تک کارکردگی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ جو ملک اپنے جغرافیے میں مقتدر نہیں ہوتا اُس کی دنیا کے کسی دوسرے ملک، اقوام متحدہ یا پھر کسی عالمی فورم پر کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور ریاست کے مقتدر ہونے کیلئے اُس مقتدر سیاسی جماعت کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو سب سے پہلے تو اندرونی اور بیرونی دباؤ سے آزاد ہو پھر ایک آزاد منشور عوام کے سامنے رکھے اور ایسا کرنے والی سیاسی جماعت کے سربراہ کی عوام میں مقبولیت ”مشکوک“ نہ ہو۔ حادثاتی طور پر ظہور پذیر ہونے والی قیادتیں یا حادثات کے بعد جنم لینے والے لیڈر نئے حادثات کو جنم تو دے سکتے ہیں لیکن اپنی ہی ریاست کو بدنام کرنے کے بعد اگر کسی بندر بانٹ میں اُن کے حصہ میں بھی کچھ آ جائے توایسے اسلام آباد ”اسمبلڈلیڈر“ ریاست یا ریاست میں بسنے والوں کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔
دوسرے ممالک کی عوام کے ذہن میں کسی قوم یا ریاست کا جو بھی تصور بنتا ہے اُس میں اُس ریاست کے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، فلمیں، انٹرنیٹ اور مطبوعات کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔ وطن عزیز اور عالمی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں، مباحثوں، سیمیناروں اور لیکچروں کے ذریعے بھی ہم دنیا کو اپنی تصویر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کے میڈیا کا کردار آپ کے سامنے ہے اور اس کے علاوہ دوسرے ذرائع ابلاغ کی حالتِ زار پر بھی ماتم و گریہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ 76 سال میں ہم نے عالمی سطح کے کتنے دانشور اور تخلیق کار پیدا کیے ہیں؟ ہماری شناخت، کرپشن، ہیروین، خودکش حملے، صوبہ پرستی، فرقہ واریت، غداری اور کفرکے فتوے، ناانصافی، عدل میں تاخیر، لاقانونیت، مقروض، اداروں میں کشمکش، اغوا، ٹارگٹ کلنگ اور اس کے علاوہ سیکڑوں بڑے اور چھوٹے ناپسندیدہ معاملات اور واقعات کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ ہے ہمارا حقیقی مجسمہ وطن جس کے کندھوں پر کھڑے ہو کر ہم ہمالیہ سے بلند دعوے کرتے ہیں۔
اِن سب وارداتوں کا مجرم کسی ایک فرد یا جماعت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ گزشتہ 76 سال کی مسلسل خارجی اور داخلی پالیسیوں کی ناکام ریاضت کا نتیجہ ہے لیکن آج ہر گناہگار اور مجرم چاہتا ہے کہ یا توکسی فرد واحد پر اِن تمام جرائم کا ملبہ ڈال دیا جائے یا پھر کسی طرح عوام کو یہ تاثر دے دیا جائے کہ اگر فلاں ادارہ نہ ہوتا تو آج امریکہ اور یورپ سے ہم خراج وصول کر رہے ہوتے۔ مجھے لکھنے دیں کہ آج بھی آپ کے پاس مستقبل کا کوئی قابلِ عمل پروگرام نہیں ہے اور اگر ہے تو ابھی تک میری نظر اور سمجھ سے اوجھل ہے۔ اگر آپ کو کوئی تفہیم ہو چکی ہے تو میں آپ سے سمجھنا چاہوں گا۔
بھٹو بھارت کی طرف منہ کرتا تھا تو ایک ہزار سال تک جنگ کرنے اور دلی کے لال قلعہ پرجھنڈا لگانے کی بات کرتاتھا لیکن جب داخلی معاملات پر گفتگو کرتا تھا تو روٹی،کپڑااور مکان دینے کی ذکر کرتا تھا۔ کسی دانشور نے بھٹو سے یہ سوال نہیں کیا کہ جناب! اگر آپ جنگ کریں گے تو روٹی، کپڑا اور مکان کیسے دیں گے؟ اور اگر روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کر دیا تو لال قلعہ پرجھنڈا کیسے لگے گا۔ اتنے بڑے تضاد کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی بس”بھٹو دے نعرے وجن گے“ کہ شور میں ساری عقل دب کر رہ گئی۔ روٹی کپڑا اورمکان تو خیر عوام کو نا ملے لیکن جھنڈا بھی غلطی سے لال قلعہ پر لگانے کے بجائے ہم نے لال مسجد پر لگا دیا۔ دوسرا بھٹو تو بھٹو سے دوگنی اکثریت لے کر کامیاب ہوا لیکن جب اصل بھٹو بننے کی باری آئی تو یوں غیب ہوا کہ ساتھیوں کو متصل کال کوٹھڑیوں میں سورج نکلنے کے بعد اُس کی ہجرت بارے خبر موصول ہوئی۔ پاکستان کو ایک عظیم پاکستان بنانے کا ایک ہی طریقہ کارہے کہ آپ اپنی اندرونی کارکردگی بہتر کر لیں۔ آپ کو اپنی خوبصورت تصویر کیلئے کسی تشہیری مہم کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بدصورت چہرے کی تشہیری مہم پر ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور سوئس بنکوں کا سارا روپیہ خرچ کردیں اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ نپولین نے کہا تھا کہ مشترکہ خطرہ بدترین دشمنوں کو یک جا کردیتا ہے اور کل تک آصف علی زرداری کے پیٹ سے لوٹا ہوا مال نکلوانے کے دعویدار اب سگے بھائیوں کی طرح مل رہے ہیں لیکن یہاں اگراقتدار ایک بار پھر نواز شریف کو دیا گیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ اپنی زندگی کی سب سے بڑی آخری غلطی کرے گی کیونکہ نہ وہ رہیں گے اور نہ ہی ملکی سلامتی کی کوئی ضمانت، کیونکہ یہ ملک میاں نواز شریف، آصف زرداری اور عمران نیازی کی دشمنی کا میدان جنگ نہیں جہاں ہرپانچ سال بعد اُن کی فتح اور شکست کا فیصلہ کیا جائے۔
آج ایک بات سوچ لیں کہ ہم اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ پر ہیں۔ پاکستان مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارا ایک غلط قدم ہمیں ہمیشہ کیلئے ذلت کی گہرائیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دھکیل سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو ایک سونامی کا سامنا ہے لیکن ہمیں اس کا مرکز ابھی سے دیکھ لینا چاہیے ورنہ یہ تبدیلی بھی چند بڑے گھروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی کیونکہ سونامی کو شہر کی گلیوں کا رستہ دکھانے والے وہی پرانے چہرے ہیں جن کو عوام بارہا آزما چکی ہے۔ بے یقینی کا شکار قوم تذبدب میں ہر وہ فیصلہ کر لے گی جس پر اُن کی ذہن سازی کی جائے گی۔ یہ ذہن سازی کرنے والے کون ہیں؟ ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ تجربہ ناکام ہو گیا تو پھر اس کے بعد ہمیں کسی تجربے کا موقع نہیں ملے گا۔ پاکستان کے دانشوروں کی موجودہ حالات میں سب سے اہم ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر قوم کی حقیقی رہنمائی کریں ورنہ جنرل ضیاء الحق کا تھنک ٹینک تو اپنا کام مکمل کرچکا ہے۔
تبصرے بند ہیں.