بلا شبہ عزت ساری کی ساری اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔۔۔وہ جسے چاہتا ہے عزت عطا کرتاہے۔۔۔ اسے دنیا کی کوئی طاقت پامال نہیں کر سکتی۔۔۔نظام کائنات کے تحت کچھ لوگوں کو زندگی میں عزت ملتی ہے اور اکثر کو بعد از مرگ۔۔ایسے لوگوں کے مرنے کے بعد ان کی قبر پر چراغ روشن رہتے ہیں۔۔وہاں کئی قسم کی مرئی اور غیر مرئی مخلوقات پہرہ دیتی ہیں۔۔۔رونقوں کے میلے لگے رہتے ہیں اورصدیاں اپنا سفر طے کرتے ہوئے ان کے کر دار کو روشن ستاروں کی صورت مزید نمایاں کرتی رہتی ہیں۔۔۔!
عزت کے سب معیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ بعض اوقات انسان عزت کے حصول کی خاطر اپنے دائرہ کار میں بہت کوشش کرتا ہے، بڑے بڑے محل تعمیر کرتاہے، جاگیریں بناتا ہے، اقتدار حاصل کرتاہے الغرض بڑے پاپڑ بیلتاہے مگر عزت حاصل نہیں کر پاتا۔۔۔اختیار اور اقتدار کی مسند پر اسے وقتی طور پر بہت سی خوشامدیں اورجھوٹی عزت مل جاتی ہے مگر ایک ذرا وقت بدلتا ہے تو دور دور تک اس کا کوئی نام لیوا تک بھی دکھائی نہیں دیتابلکہ کچھ لوگ تو اپنی زندگی میں ہی آہستہ آہستہ نشان عبرت بن کر ہونے سے نہ ہونے کے مرحلے تک جا پہنچتے ہیں۔۔۔جبکہ دوسری طرف عزت دینے والا خالقِ کائنات جب عزت دیتا ہے تو اپنے حساب کے مطابق دیتاہے۔۔۔وہ چاہتا ہے تو کسی گدڑی پوش کو وہ عزت عطا کرتاہے کہ امر کر دیتاہے اورکبھی کسی غریب کی عزت دلوں میں اجاگر کر کے اسے حیات جاوداں بخش دیتا ہے۔۔۔اس کی دی ہوئی عزت لوگوں کے دلوں میں زندہ جاوید رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک عزت اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عطاکی ہے جومحسن پاکستان کی صورت اہل وفا کے دلوں میں ہمیشہ زند ہ رہیں گے۔۔۔۔!
”پاکستان نیوکلیئر ویپن پروگرام“ کی وجہ سے شہرت پانے والے، اردو سپیکنگ پختون، ڈاکٹر اے۔کیو خان بنیادی طور پر ایک نیو کلیئر سائنسدان اور میٹالرجیکل انجینئر تھے۔ آپ کی زندگی عزم، ہمت، حوصلے، صلاحیت، جہد مسلسل اور وطن سے محبت و قربانی کی ایک انوکھی داستان ہے۔ یکم اپریل 1936ء کو ہندوستان میں واقع بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والے فرزند پاکستان کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ اس کی جنم بھومی نے نہ ہی کبھی ملک و ملت کا کوئی غدار پیدا کیا نہ مذہب میں کمند لگانے والا کوئی فرد پنپنے دیا۔۔۔! بھوپال ہی میں آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور وہاں کے ایک مقامی سکول سے میٹرک کیا۔۔.!
آپ کے والد گرامی کا نام عبدالغفور تھا جو شعبے کے اعتبار سے سکول ٹیچر تھے اور وہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان پہنچے اور کراچی کے علاقے میں سکونت اختیار کی۔ یونیورسٹی آف کراچی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تقریباً تین سال تک آپ نے کراچی میٹرو پولیٹن کوآپریشن میں بطور انسپکٹر "Inspector ”Weights and Measures کام کیا اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپ پر جرمنی پہنچے اور وہاں سے اپنے مزید تعلیمی سفر میں نیدرلینڈ اور لجیم کی کیتھولیک یونیورسٹی تک کا سفر طے کیا جہاں سے 1972ء میں "The effect of morphology on the strenght of coppor based mortensites” کے عنوان سے اپنی پی۔ایچ۔ ڈی مکمل کرکے مزید فعالیت سے عملی طور پراپنے کام کو آگے بڑھایا۔۔!
اسی دوران 1974 ء میں انڈیا نے نیوکلیئر ٹیسٹ کرکے پاکستان پر اپنی برتری جتائی جس کے جواب میں حب الوطنی سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹمی میدان میں اپنی خدمات اپنے وطن عزیز کو پیش کردیں۔۔ایک طویل اور پیچیدہ عمل کے بعد آپ کو پاکستان کے دفاع کے لیے متحرک ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔آپ کی زیر قیادت خان ریسرچ لیبارٹریز(KLR) میں نیوکلیئر پروگرام آگے بڑھتا گیااور تقریباً پچیس سال تک آپ نے اس پروگرام کی سربراہی کی۔۔۔!
اس دوران آپ نے کمال متانت، مستقل مزاجی، صلاحیت اور وقار کے ساتھ ملک وقوم کی ترقی کیلئے اپنا کر دار بہت ہی بھر پور انداز میں ادا کیا اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے حوالہ سے ان کی ان تھک محنت، لگن، جذبہ، صلاحیت اور قابلیت نے 28مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کی شکل میں وہ کام کیا جس نے پاکستان کو دنیائے عالم میں قائدانہ اور ممتاز مقام عطا کیا۔۔۔!
ان کی زندگی راستبازی، سچائی، عملیت اور عشق مصطفیٰﷺ سے مزین تھی۔۔بے شمار علمی، ادبی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی خدمات کا سہرہ ان کے سر بندھا ہے۔۔۔ ان کے سینے میں انسانیت کا درد اور مسلمانوں کو اوج ثریاتک دیکھنے کا والہانہ جذبہ موجزن تھا۔ آپ کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں آپ کو دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک بار ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔۔! تاہم نائن الیون کے تناظر میں اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کو گھر میں نظر بند کردیا گیا۔۔۔اپنی نظر بندی کے اس طویل اور تکلیف دہ عرصہ کو بھی انہوں نے کمال حوصلے، وقار اور برداشت سے گزارا اور بالآخر سرخرو ٹھہرے۔۔!
دو بیٹیوں دنیا خان اور عائشہ خان کے باپ، انقلاب پسند شخصیت کے مالک اور تحریک تحفظ پاکستان کے بانی پچاسی سال کی عمر میں بظاہر 10 اکتوبر 2021ء کی ایک اداس صبح ہم سے بچھڑ کر ایچ۔ایٹ اسلام آباد کے قبرستان میں مدفون ہوگئے۔۔۔مگر عملاً دلوں میں زندہ ہوگئے۔۔۔! بظاہر آپ کی دوسری برسی بھی بڑی خاموشی سے گزر رہی ہے۔۔سرکاری سطح پر حکمرانوں کو کوئی تقریب منعقد کرنے کی توفیق ہوئی نہ سیاست دانوں کی ذرا ذرا سی بات پر ہفتوں ٹاک شو کرنے والے میڈیا نے کوئی خاص پروگرام نشر کیا۔۔ مگر آپ پھولوں جیسی ہستی کے مالک وہ پھول ہیں جو مرجھا توسکتاہے مگر اس کی خوشبو اور احساس کو ئی نہیں چھین سکتا۔۔۔کل تک ڈاکٹر صاحب ایک اور رنگ میں زندہ تھے آج ایک اور رنگ میں نمایاں ہیں۔دفاع پاکستان کا جو سہرا اور تاج ان کے سر بندھا ہے اس کی چمک کبھی ماند نہ ہوگی۔۔۔!وہ عزم و ہمت کی ایک مجسم داستان اورایک زندہ وجاوید تحریک کی صورت تاریخ کے اوراق اور دلوں میں ہمیشہ جاوداں رہیں گے۔۔۔!
تبصرے بند ہیں.