گرمی اور آلودگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

70

تبدیلی سرکار کی حکومت میں شہر کچرے کا ڈھیر بنے رہے، ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا، مچھر کے ساتھ مکھیوں کی بہتات ہوئی پی ٹی آئی کے پورے دور حکومت میں پنجاب خصوصاً لاہور بے یار و مدد گار رہا مچھر مکھی مار سپرے جو گاہے گاہے ہوتے رہنا چاہیے وہ بھی نہیں ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ بچے بوڑھے اور خواتین بیمار یوں کا شکار رہنے لگے تو دوسری جانب گرمی میں شدید اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اتنی شدید گرمی وہ بھی چبھنے اور بدن جھلسانے والی کہ خدا کی پناہ، لیکن افسوس ناک امر جو دیکھنے میں آیا کہ پنجاب بھر کی کسی یونیورسٹی، ریسرچ سنٹر یا سائنسی لیب کے علاوہ کسی بھی سرکاری ادارے یا حکومت نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ گرمی بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں ریسرچ کے معاملے میں شائد ہم بانجھ ہیں یہ بوجوہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دنیا اس وقت گرمی بڑھنے کی وجوہات پر سر جوڑے بیٹھی ہے اربوں ڈالر ریسرچ پر مختص کئے جارہے ہیں، لیکن ہمارے ہاں کسی بھی قومی و بین الا قوامی معاملے پر ریسرچ تو دور کی بات ہماری حکومتی اشرافیہ سے لیکر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس ضمن میں شائد سوچا بھی نہیں جا رہا، ملک میں آبادی میں اضافہ ایک بہت بڑا مسلہ بن کر سامنے آرہا ہے، نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

دنیا بھر میں جان لیوا بیماریوں پر قابو پایا جا چکا ہے لیکن ہمارے ہاں بچپن سے لیکر بڑھاپے تک درجنوں حفاظتی ٹیکے لگوانے کے باوجود پاکستان سے جان لیوا بیماریوں کا خاتمہ تو دور کی بات کمی تک واقع نہیں ہو رہی، کیا اس پر سوچ بچار کی ضرورت نہیں؟ پولیو جیسا مرض جو دنیا سے ختم ہو چکا ہے ہم اس معاملے میں افغانستان کے ساتھ کھڑے ہیں اسی طرح کرونا کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں کوئی ریسرچ نہیں ہوئی۔ اور باتیں کرتے ہیں ہم دنیا کو فتح کرنے کی۔

مندرجہ ذیل رپورٹ ہماری ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے اگر ہم اس پر غور کریں تب، اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاہور میں گرمی کے بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق جاری کی ہے، جس کے مطابق دنیا میں نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے گلنے سڑنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر میتھیں گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ یہ وہ گیس ہے، جو زمینی درجہ حرارت میں اضافے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دنیا کے تین بڑے شہروں کے سیٹلائٹ ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے۔ ان بڑے شہروں میں پاکستان کا لاہور، بھارت کا دہلی اور ارجنٹائن کا بیونس آئرس شامل ہیں۔ اس ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ 2018ء اور 2019ء کے دوران لاہور میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج 1.4 سے 2.6 گنا زیادہ تھا۔ یہی حال دہلی اور بیونس آئرس کا تھا۔ یہ مطالعہ تحقیقی جریدے ‘سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس تحقیق کا مقصد مقامی حکومتوں کو عالمی حدت میں کمی کے لیے بنائے گئے اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس طرح ان خصوصی عوامل اور مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ماحولیاتی تباہی میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

میتھین گیس کیسے بنتی ہے؟ اور اس کا کیا کردار ہوتا ہے کے بارے اس رپورٹ کے مطابق جب نامیاتی فضلہ جیسے کہ خوراک، لکڑی یا کاغذ گلنے سڑنے لگتے ہیں تو ہوا میں میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ آئل اینڈ گیس سسٹمز اور زراعت کے بعد دنیا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی تیسری بڑی وجہ نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا پھر لینڈ فِلز ہیں۔ لینڈ فِلز اس نامیاتی ملبے کو کہا جاتا ہے، جو زمین بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین کا حصہ صرف 11 فیصد ہے اور اخراج کے بعد یہ تقریباً بارہ سال تک ہوا میں رہتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہوا میں یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 80 گنا زیادہ گرمی یا حدت کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق موجودہ عالمی حدت میں 25 فیصد کردار اُس میتھین گیس کا ہے، جو انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ یوہانس ماساکیرز اس مطالعے کے سرکردہ مصنف ہیں اور نیدرلینڈز انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس میں بطور ماحولیاتی سائنسدان اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”یہ پہلا موقع ہے کہ ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر کو لینڈ فلز کا مشاہدہ کرنے اور ان کے میتھین کے اخراج کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے“۔ ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ”ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بہت سے نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا لینڈ فلز شہر کے سائز کے مقابلے میں تو نسبتاً چھوٹے ہیں لیکن اُس مخصوص علاقے میں خارج ہونے والی ضرر رساں گیسوں کے ایک بڑے حصے کے ذمہ دار ہیں“۔

اوآن نسبت یونیورسٹی آف لندن میں ارتھ سائنٹیسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”اس نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لینڈ فلز یا کوڑے کے ڈھیروں کا بہتر انتظام کس قدر ضروری ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں تو خاص طور پر اس حوالے سے اقدامات کرنا ضروری ہیں کیوں کہ ان ممالک میں اکثر ایسے کوڑے کے ڈھیروں کو آگ لگ جاتی ہے، جس سے ایسے علاقوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے سدباب میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ابھی نیا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک مستقبل میں اس سے مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق چین اور بھارت دنیا میں سب سے زیادہ میتھین گیس پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔

مندرجہ بالا رپورٹ پیش کرنے والے نے ہم جیسے نکمے لوگوں پر احسان عظیم کیا اور ہمیں باور کرایا ہے کہ اگر ہم نے مستقبل میں آگ میں جھلسنے سے بچنا ہے تو ہمیں بحیثیت مجموعی کیا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں پہلی ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے کہ وہ ان اسباب کا خاتمہ کرنے کے لئے فوری اقدامات کرے جو درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں جس میں شہروں کا کچرا بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے لئے صفائی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے اور کوڑے کو جلانے پر سختی برتی جائے۔ اس کے ساتھ ہی شہریوں میں صفائی کے حوالے سے ایک طرف شعور اجاگر کیا جائے تو دوسری جانب گندگی پھیلانے اور کچرا جلانے والوں پر بھاری جرمانے عائدکئے جائیں۔ مسئلہ اگر اجتماعی ہے تو اس کا حل بھی اجتماعی سطح پر ہی نکالنا ہو گا۔ لیکن پھر ایک بار اس بات کا اعادہ کئے بنا چارہ نہیں کہ پہلی ذمہ داری حکومت کی ہی ہے، وہ انسانی زندگی کو عذاب میں مبتلا کرنے والے اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے لیکر اس پر کام کرے ورنہ شہر تندور تو بن ہی چکے ہیں ان میں رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ آلودگی میں اضافہ بھی ہماری غفلتوں کی وجہ سے ہی اس پر آئندہ انہی صفحات پر بات کی جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.