ایک اور فوجی آپریشن کی ضرورت!

71

12ربیع الاول میلاد النبیؐ کے موقع پر مستوک اور ہنگو میں دہشت گردی کے واقعات اندوہناک حالات کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ کہ دشمن جب چاہے، جہاں چاہے حملہ آور ہو سکتا ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ جیسے پورا ملک ان کی گرفت میں ہے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ رہی ہوں کہ حالیہ واقعات ہماری تاریخ کا ایک سیاہ پہلو ہے جس نے کئی سوالیہ نشان ہمارے حکمرانوں اور عوام کیلئے چھوڑ دیے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو عوامی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ماضی میں وہ مہنگائی ختم کرنے، بیروزگاری کم کرنے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام کو دہشت گردی کا نیا تحفہ دیا جا رہا ہے۔ اس قوم نے ایک طویل عرصہ تک دہشت گردی کا سامنا کیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارا وطن دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ ان واقعات میں ہمارے ہزاروں شہری اور افواج کے جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا وہ علیحدہ ہے۔ انسانی خون کا بے دریغ زیاں ہوتا رہا جس کا سلسلہ تھمنے کے بجائے ایک بار پھر بڑھنے لگا ہے۔ 2014 میں پیش آنے والے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی قیادت کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان تیار کیا جس میں دہشت گردی کی کسی بھی صورت کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک بڑا آپریشن ’ضرب عضب‘ کے نام ہوا، جس میں پوری قوم نے پاک فوج کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور وہ آپریشن کامیاب ہوا اور دہشت گردوں کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے آپریشن ضرب عضب میں بھی مکمل طور پر دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو سکا اور ان کی اِکا دُکا کارروائیاں جاری رہیں، لیکن ان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ صرف اپنی موجودگی کے اظہار کیلئے دہشت گرد موقع ملنے پر چھوٹی موٹی کارروائیاں کرتے رہے مگر دہشت گردی کی گزشتہ تاریخ کے مقابلے میں یہ کارروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یوں کچھ عرصہ تک تو ملک میں امن و امان قائم رہا پھر رفتہ رفتہ دوبارہ دہشت گردوں نے وطن عزیز میں کارروائیاں شروع کر دیں۔ 2021 سے ایک بار بھر ملک میں دہشت گردی کے واقعات پیش آنے لگے اور ان میں اضافہ ہونے لگا۔ 2022 کے اختتام اور 23 کی ابتدا تک تو یہ عالم ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جب ملک کے کسی علاقے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ ان واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا اور پھر رواں سال ہی سانحہ پشاور جیسا عظیم اور المناک سانحہ رونما ہوا، جس میں سو سے زائد معصوم شہریوں کو شہید کر دیا گیا۔ اب ربیع الاول کے جلوس میں 60 سے زائد افراد کو شہید کر دیا گیا۔ بہرحال حالیہ دھماکوں کی نوعیت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے 12 ربیع الاول کے موقع پر دھماکوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ مستونگ اور ہنگو دوآبہ نسبتاً کم آبادی والے علاقے ہیں، یہ سکیورٹی فورسز کی کامیاب حکمت عملی اور انٹیلی جنس تبادلے کا نتیجہ ہے کہ شدت پسندوں کو گنجان آباد شہروں میں گھسنے کا موقع نہیں مل سکا، اگر خدانخواستہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ بڑے شہر ہوتے تو نقصان ہمارے تصور سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔ میلاد النبیؐ کے موقع پر دھماکوں کے بعد سکیورٹی ادارے حرکت میں آئے اور مردان سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے ذریعے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ سکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی دہشت گردوں کے سرپرستوں کیلئے پیغام ہے کہ اپنے مذموم ارادوں سے وہ جو دہشت پھیلانا چاہتے ہیں ان کا ہر منصوبہ ناکام ہو گا اور گھناؤنے کھیل میں ملوث تمام کرداروں کو ڈھونڈ نکالا جائے گا۔ بہرکیف افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور انہیں محفوظ ٹھکانے بھی میسر آ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا، طالبان ہماری مغربی سرحد پر دہشت گردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند کر دیں گے۔ مگر اب حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت مایوسی اور افسوس ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے خاردار باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا مگر اب تو وہ بھی غیر موثر محسوس ہو رہا ہے کیونکہ دہشت گردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جوں کا توں ہے، نہ جانے وہ باڑ کس کام کی ہے؟ لہٰذا ہمیں کسی کی طرف دیکھنے کے بجائے بزور طاقت اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانا چاہیے۔ ہمیں امریکا، اقوام متحدہ اور نہ ہی افغانستان سے امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔ ہمیں خود ہی ان دہشت گردوں سے پوری قوت کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ ایک بار پھر آپریشن ضرب عضب کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے جس میں دہشت گردوں کی باقیات بھی نہ رہیں۔ اگر ان کی باقیات کو چھوڑ دیا جائے گا تو وہ دوبارہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اب مذمت اور مذاکرات کا وقت نہیں ہے، ہم نے یہ سب بہت کر کے دیکھ لیا ہے، اس سے ذرہ برابر افاقہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اب ریاست کو اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ وسیع پیمانے پر آپریشن کرنا ہو گا۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے دہشت گردی کا خاتمہ اور ملک میں امن قائم ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.