”جمہوریت کے گیارہ ستون!“

84

نوبل انعام یافتہ روسی نژاد شاعر جوزف براڈسکی لکھتا ہے کہ ”ایک آزاد آدمی جب ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈالتا“۔ یہ بات جمہوریت رکھنے والے ممالک کے ان شہریوں پر بھی صادق آتی ہے جنہیں بالآخر اس معاشرے کی تقدیر کی ذمہ داری اپنے اوپر لینی ہوتی ہے جس میں رہنا وہ خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں وہ حکومت میسر آتی ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔  تعلیم کسی بھی معاشرے اور بالخصوص جمہوریت کا اہم ترین جزو ہوتی ہے جیسا کہ تھامس جیفرس  نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ”اگر کوئی قوم تہذیب کے دور میں بیک وقت جاہل اور آزاد رہنا چاہتی ہے تو وہ ایک ایسی بات کی خواہش کرتی ہے جو نہ کبھی ہوئی اور نہ کبھی ہوگی“۔ لہذا جمہوریت کاعمل وہیں پر پھل پھول سکتا ہے جہاں تعلیم کی فراوانی ہو اور معاشرہ شعور کے اس مقام پر ہو جہاں وہ رہ کر ایک آزاد شہری ہونے کے باوجود مادر پدر آزاد نہ ہو۔ونیڈر بلٹ پروفیسر چیسٹر ای فن جو نیئر  نے نکارا گوا میں معلمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لوگ ذاتی آزادی کی خواہش کے ساتھ تو پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں (یعنی آزاد رہنے کے لیے) علم حاصل کرنا پڑتا ہے“۔ اس پس منظر میں یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ کسی جمہوریت میں تعلیم کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آمرانہ حکومت کی نظر یاتی تعلیم سے بچا جائے اور ایسی تعلیم دی جائے جو سیاسی اقدار کے بارے غیر جانبدار نہ ہو۔ایک صحت مند جمہوریت کا زیادہ تر انحصار ایک جمہوری شہری تہذیب کے ارتقاء پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں ڈائنے ریوچ کا کہنا ہے کہ ”یہاں تہذیب کا تعلق فن، ادب، موسیقی سے نہیں بلکہ ان رویوں، طور طریقوں اور اقدار سے ہوتا ہے جو عوام کی اپنے اوپر حکومت کرنے کی اہلیت کا تعین کرتی ہے“۔ لغت میں جمہوریت کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ”عوام کی حکومت جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جسے وہ براہ راست یا آزادانہ انتخابی نظام کے تحت اپنے منتخب نمائندوں کے ذیعے استعمال کرتے ہیں“۔ ابراہم لنکن کے الفاظ میں جمہوریت ”حکومت عوام کی، عوام کی طرف سے اور عوام کے لیے ہوتی ہے“۔ جمہوریت درحقیقت ایسے آئینی قواعد وضوابط کے مجموعے سے زیادہ کا نام ہے جو یہ طے کرتے ہیں کہ حکومت کس طرح کام کرے۔ کسی جمہوریت میں متعدد اور مختلف النوع ادوار، سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ایسوسی ایشنوں کے معاشرتی تانے بانے میں حکومت ایک عنصر ہے جو دوسروں کے ساتھ قائم ہے۔ تنوع کو کثرت الوجود کانام دیا جاتا ہے اور یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں بہت سے منظم گروپ اور ادارے جواز یا اقتدار کے لیے حکومت پر انحصار نہیں کرتے۔کسی جمہوری معاشرے میں ہزارہا نجی تنظیمیں کچھ مقامی سطح پر اور کچھ قومی سطح پر چلتی رہتی ہیں اور ان میں سے بہت سی تنظیمیں ایسی ہوتی ہیں جو افراد اور پیچیدہ معاشرتی وحکومتی اداروں کے درمیان جن کا وہ حصہ ہوتے ہیں، مصالحانہ کردار ادا کرتی ہیں جبکہ ایک آمرانہ معاشرے میں عملاً ایسی تمام تنظیموں پر کنٹرول ہوگا اور ان پر لائسنس حاصل کرنے کی پابندی ہوگی۔ حکومت ان کی باقاعدہ نگرانی کرے گی یا وہ خود حکومت کے سامنے جوابدہ ہوں گی مگر جمہوریت کے اختیارات کو قانون کے ذریعے واضح طور پر بیان اور بہت محدود کردیا جاتا ہے اس طرح نجی تنظیمیں حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہوکر کام کرتی ہیں۔ دنیا کے اندر تمام جمہوریتیں ایسے نظاموں کی شکل ہیں جن میں شہری کثرت رائے سے سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔ جمہوریتوں کی دواقسام ہیں۔ ایک ”براہ راست“ اور دوسری ”نمائندہ“۔ براہ راست جمہوریت میں تمام مشینری منتخب یا مقررہ عہدیداروں کی وساطت کے بغیر ہی سرکاری فیصلے کرنے میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کا نظام واضح طور پر مقابلتاً کم تعداد لوگوں مثلاً ایک تنظیمی معاشرے یا قبائلی کونسل، کسی لیبر یونین کے مقامی یونٹ وغیرہ میں قابل عمل ہوتا ہے جہاں اراکین بند کمرے میں بیٹھ کر مسائل پر بحث مباحثے کے بعد عمومی اتفاق رائے یا کثرت رائے سے فیصلے کرتے ہیں،قدیم ایتھنز میں جو دنیا کی پہلی جمہوریت تھی، پانچ یا چھ ہزار افراد کے اجتماع کے ساتھ براہ راست جمہوریت چلائی گئی۔ غالباً یہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد تھی جو ایک جگہ جمع ہو سکتی تھی۔ دنیا کی پہلی جمہوریت جو چھٹی یا پانچویں صدی قبل مسیح میں قائم ہوئی، اس کا مرکزی سیاسی ادارہ اسمبلی تھی اور اس کے دروازے تمام بالغ مرد شہریوں کے لیے کھلے ہوتے تھے ماسوائے خواتین یا غلام اور غیر ملکی افراد کے۔ اسمبلی سادہ اکثریت کے ساتھ عملاً کسی بھی داخلی مسئلے پر کسی قانونی پابندی کے بغیر فیصلہ کرسکتی تھی۔ مقدمات 501 شہریوں پر مشتمل جیوری چلاتی تھی اور وہی کثرت رائے سے جرم یا بے گناہی کا فیصلہ بھی دیتی تھی۔ یہ بات غالباً بہت ہی نمایاں ہے کہ اسمبلی کے اراکین انتخابات نہیں بلکہ قرعہ اندازی کے ذریعے چنے جاتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایتھنز کے لوگوں کے نزدیک ہر شہری سرکاری عہدہ حاصل کرنے کا اہل تھا۔ عام طور پر انتخابات ایک سال کی مدت تک کے لیے ہوتے تھے اور اس وقت صدر، وزیر اعظم، کابینہ یا مستقل سول سروس جیسے مسلمہ انتظامی ادارے موجود نہیں تھے اور فیصلہ سازی کا تمام تر بوجھ اسمبلی کے شہری ارکان پر ڈال دیا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیں اور آج اس جدید دور میں جمہوریت ایک مکمل اور واضح شکل میں دنیا میں رائج ہے۔ دنیا  نے جمہوریت کو گیارہ ستونوں پر قائم کررکھا ہے جن پر جمہوریت کی بلند و بالا عمارت اپنے مکمل وجود کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ جمہوریت کے یہ گیارہ ستون۔ عوام کی بالادستی، اکثریت کی حکمرانی، اقلیتوں کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت، آزاد و منصفانہ انتخابات، قانون کی نظروں میں برابری، قانون کا ضروری عمل، حکومت پر آئینی پابندیاں، معاشرتی اقتصادی اور سیاسی کثرت الوجود، رواداری، حقیقت پسندی اور مفاہمت کی اقدار، ان لوگوں پر مبنی حکومت جن پر حکومت کی جاتی ہو لہذا ان گیارہ ستونوں پر پانچ بنیادی انسانی حقوق بھی شامل کئے گئے ہیں جو کہ جمہوریت کی حقیقی پہچان ہیں۔ ڈائنے ریوچ لکھتا ہے کہ ”جمہوریت ایک عمل کا نام ہے۔ مل جل کر رہنے اور کام کرنے کے طریقہ کا نام ہے۔ یہ انقلابی ہے جامد نہیں۔ یہ تمام شہریوں کے درمیان تعاون، مفاہمت اور رواداری کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کو چلتے رکھنا مشکل ہے آسان نہیں۔ آزادی کا مطلب ذمہ داری سے مبرا نہیں بلکہ ذمہ داری کا عائد ہونا چاہیے“۔ اسی طرح تھامس جیفرسن کے زوردار مگر دانشمندانہ الفاظ میں ”جمہوریت زندگی اور خوشحالی کی تلاش کا وعدہ کرتی ہے“ اور یہ جمہوریت یاایسی ہی جمہوریت جو دنیا میں گیارہ ستونوں پر اپنے مکمل وجود کے ساتھ کھڑی ہے، کیا ہمارے ملک میں بھی رائج ہے؟

تبصرے بند ہیں.