ڈوبتے سورج کی لاش

96

میں نے ہر روز ڈوبتے ہوئے سورج کی لاش کو غور سے دیکھا اور یہ لاش جو کہانی سنا رہی ہوتی ہے اس کو دل کی گہرائیوں، تخیل کی پروازوں اور اپنی روح کی تنہائیوں سے سنا اور دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے کبھی کوئی صاحب اقتدار شخص متاثر نہ کر سکا البتہ صاحب حال، دانشور، انسان دوست اور صاحب تصوف لوگوں کا معاملہ مختلف ہے۔ اسی سورج نے سامی، بابل، داوڑ، آریائی، عرب، تاتاری، یورپین، ترک، مشرقی، مغربی نہ جانے کس کس تہذیب کو عروج کی دھوپ عطا کی ہر چڑھا ہوا سورج بالآخر لاش کی صورت میں بدل گیا مگر تہذیبوں، قوموں اور افراد کے مثبت کردار کی روشنی آنے والے لوگوں اور انسانی نسلوں کے لیے اساس اور اثاثہ ثابت ہوتی رہی۔ راقم اگر تاریخی حوالہ جات کی طرف چلا گیا تو موضوع کالم نہیں کتابوں کی صورت اختیار کر جائے گا چونکہ زیر قلم تحریر صرف عصر حاضر اور اس میں بھی وطن عزیز کے بسنے والے لوگ چڑھنے اور چمکنے کے بعد لاشوں میں بدلتے ہوئے سورجوں کا ذکر ہے۔ یہاں پر زوال سے مراد موت نہیں، موت تو زندگی کا حسن اور لازمی انجام بلکہ دوسرا سفر ہے مگر وہ لوگ جو عزت، نام، شہرت، بدنامی، وحشت، دہشت اور گلیمر کی علامت ہوئے کیا ان کے زمانے میں بسنے والے انسانوں نے ان کو نہ دیکھا کہ کیسے ان کے نام گمنامی، شہرت ماضی کے قصے، وحشت عبرت، دہشت داستانوں میں اور تکبر خاک میں مل گئے۔ دفتروں، سرکاری کوٹھیوں کے باہر لگی تختیاں کیسے اور کب قبر کے کتبوں میں بدل گئیں، معلوم ہی نہ ہو سکا۔ قول ہے کہ عروج کے وقت کی عاجزی زوال کے وقت کی ذلت سے بچاتی ہے۔ اقوام عالم اور شخصیات کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے بتاتے ہیں کہ انسان تو کیا تمام تہذیبوں، قوموں اور ان کی شخصیات کے سورج کا عروج اس وقت کے گواہان کو اگر اپنی تمازت سے صرف جھلساتا رہا تو اس چڑھے سورج کی لاش عبرت اور بے بسی کی داستانوں میں بدلتی چلی گئی اور جنہوں نے بنی نوع انسان کے لیے مثبت کام کیے، اُجالا اور توانائی دی، ان کی روشنی آنے والی انسانی نسلوں کی زندگی منور کرتی رہی اور کرتی رہے گی۔ سر گنگا رام، میو برادران، گلاب دیوی، گوجرانوالہ کے محمد بخش ڈار، بابو عطا محمد، مدر ٹریسا، عبدالستار ایدھی، صرف حضرت ابراہیمؑ و نمرود، حضرت موسیٰ ؑ و فرعون حضرت امام حسینؓ و یزید حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا کو دیکھ کر اپنا قبیلہ چن لیں۔ وطن عزیز میں جسٹس منیر سے مولوی مشتاق، جسٹس انوارالحق سے افتخار چودھری، چاقب نثار، کھوسہ اور بندیال، ایوب، یحییٰ، ضیا، مشرف، نواز، زرداری، عمران و دیگران کا قصہ کیا ہوا؟ ان میں سے اکثر کی تپش رات کی ٹھنڈک میں بھی شدت سے محسوس کی جاتی رہی، تشہیر پسندی اس قدر کہ شاید اپنی موت کی خبر بھی اپنی آنکھوں سے پڑھنا اور ٹی وی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ نہ جانے کون کون سے چہرے جو موت سے پہلے ہی لاشوں کی صورت اختیار کر گئے جو غور کریں تو خود اپنی قبر کا کتبہ اٹھائے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ تو کسی کھاتے میں نہیں یہاں تو بڑے بڑے سرخیلوں کے بارے میں کسی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نام اور قماش کا کوئی انسان دنیا میں آیا بھی تھا یا نہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ سیاسی کے علاوہ عسکری، عدالتی اور انتظامی عہدیداران کو بھی وطن عزیز میں بسنے والے گواہان نے ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح بے بس دیکھا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بش کی پھیلائی ہوئی بربادی کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بے بسی میں بدلتے ہوئے دنیا نے دیکھا اس کی تمازت کو اوباما چاہتے ہوئے بھی برقرار نہ رکھ سکے اور نہ ہی ٹرمپ کا سورج اپنے آپ کو سنبھال سکا۔ دراصل چڑھتے سورج کا محاورہ عروج کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس حوالہ سے وطن عزیز کی اشرافیہ جو حقیقی اقتدار سے اگر باہر ہو تو اس کی خوشامدانہ جبلت کی وجہ سے ان کو سورج مکھی ہی کہا جاسکتا ہے اور ماشاءاللہ اس سورج مکھی کی جتنی فراوانی وطن عزیز میں پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے خطے کو نصیب نہیں۔ یہی سورج مکھی کی صفت پر مبنی طبقات ہیں جو حکمرانوں کے سورج کی مت مار دیتے ہیں۔ بعض مقدر تو ایسے ہیں جو ڈھلتے وقت خود سورج کے بجائے سورج مکھی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں رعونت اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ بعض سورج تو مستعار لی گئی روشنی اور تپش سے اپنے زیر تسلط انسانوں کو جھلسائے چلے جا رہے ہیں۔ در اصل حکمرانوں کو ہوش اس وقت آتا ہے جب ان کا سورج بے بسی کی گھاٹ اتر رہا ہوتا ہے۔ حکمران طبقے تو حکمران ٹھہرے فنکار، ڈاکٹر، وکلا، کھلاڑی، سرکاری افسران کون ہے جو جیتے جی بے اختیار اور بے بس نہ ہوا۔ عروج کے وقت سورج مکھیوں کی بھینٹ نہ چڑھا ہو۔ سرکاری افسران تو ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے ہی ایسے بے اثر بے وقعت ہوئے دیتے ہیں کہ ماتحت سلام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ جلا وطن نواز شریف اور حکمران نواز شریف کے گرد ہجوم میں فرق دنیا نے دیکھا۔ ہر صاحب اقتدار کو اگر اپنے سے پہلے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کی حکمرانی کے انتقام پر بے بسی یاد رہے تو وہ کبھی ایسی یادیں نہ چھوڑے جو اس کو عبرت کے گھاٹ اتار دیں۔ دراصل زوال عروج کو نہیں ہمیشہ تکبر کو ہوتا ہے اور تکبر میں ہمارا معاشرہ اتنا خود کفیل ہے کہ بیرونی دوروں پر گئے ہوئے ہمارے حکمران اور حکمران طبقے اس کو بیرونی دنیا میں بھی ایکسپورٹ کرتے رہتے ہیں۔ دراصل تکبر، خوشامد پسندی، غیبت، اقربا پروری سفارش، رشوت، فتویٰ گیری خود ستائشی، خود پسندی، تشہیر پسندی، قدامت پسندی اور جعلی جدت پسندی نے ہمیں باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا۔ ذمہ داری کو اختیار سمجھ بیٹھنا، اختیار کو اپنی ذات کا حق سمجھ بیٹھنا، ہمیں لے ڈوبا۔ ہمارے پاو¿ں ہماری جرابوں اور جوتوں میں رہتے ہی نہیں ہم جرنیل ہوں تو بیج بنا چاہتے ہیں اور بیج ہوں تو جرنیل۔ وزیر اعظم ہوں تو امام بننا چاہتے ہیں۔ اختیارات اور کردار کے حوالہ سے کوئی ایک مخصوص علاقہ ہمیں پسند ہی نہیں۔ پھر وقت ہاتھوں سے نکل جائے تو خیال آتا ہے کہ مٹھی میں تو کچھ بھی نہیں جو لکیریں ہیں وہ بھی اپنا وقت گزار چکی ہوتی ہیں تب آہوں اور حسرتوں اور پچھتاووں کا مجموعہ ڈوبتا ہوا سورج اتنا بے اختیار ہوتا ہے کہ اس کا ہر لمحہ رات کی آغوش کی طرف جاری ہوتا ہے، ٹھہر نہیں پاتا اور وہ بے بسی کی ایسی عبرت بنتا ہے جسے دیکھ کر ہر مظلوم اور بے بس کو اطمینان ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

تبصرے بند ہیں.