شاید یہ چال بھی الٹی پڑ گئی ہے!!!

74

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی پنچ نے تقریباً چالیس سماعتوں کے بعدآخر کار گزشتہ حکومت کی جانب سے منظور کردہ نیب ترامیم کو کالعدم قرار د یتے ہوئے اس سلسلہ میں فائدہ حاصل کرنے والے تمام افراد کے مقدمات فوری طور پر متعلقہ عدالتوں میں بھیجنے کا حکم صادر فرما ہی دیا ہے۔

دو ایک کی اکثریت سے جاری ہونے والے اس فیصلہ کی وجہ سے اب درجنوں اہم شخصیات کے بند ہو جانے والے تقریباً2000 بدعنوانی کے مقدمات، جن میں ریفرنس، شکایت کی تصدیق، انکوائری اور تفتیش کی سطح پر مقدمات شامل ہیں، کے بحال ہونے کی توقع ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے احتساب قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا تھا اور یہ مقدمہ نومبر 2022 سے زیر التوا تھا۔

واضح رہے کہ بحال ہونے والے 2000 کیسز میں سے 755 کیسز انکوائری کے مرحلے پر اور 292 کیسز تفتیشی مرحلے پر واپس کیے گئے، ذرائع کے مطابق تقریباً 510 کیسز 500 ملین روپے سے کم کے تھے اور 168 کیسز آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق تھے۔

اسی طرح سیکشن 9 اے کے تحت 213 کیسز بحال ہوئے جبکہ 89 کیس فراڈ سے متعلق ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ نیب اب بھی سپریم کورٹ کی جانب سے تفصیلی فیصلے کے اجرا کا انتظار کر رہا ہے لیکن اس کی پراسیکیوشن برانچ نے ڈیٹا مرتب کرنا شروع کر دیا ہے۔

چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلے کا اعلان کر چکی ہے لہذا اس پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے کی پوری اجازت ہے۔ ویسے تو اس پورے فیصلہ پر بہت لمبی چوڑی بات ہو سکتی ہے لیکن اس کے دو پہلو بہت اہم اور دلچسپ ہیں۔

پہلا جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ اور دوسرا پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کا اس فیصلے کی روشنی میں سٹیٹس۔

ویسے تو جسٹس منصور کے رویے، آبزویش اور سوالات سے یہ بات تقریباً واضح تھی کہ جسٹس صاحب اس مقدمہ کے متعلق کیا سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ وہ فی الحال وقت کی کمی کی وجہ سے اپنے اختلاف کی تفصیلی وجوہات بیان نہیں کر رہے لیکن انہوں نے اتنا ضرورکہا کہ ان کی نظر میں یہ کیس انسداد کرپشن کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کچھ جج صاحبان جو کسی بھی طور عوام کے منتخب نمائندے بھی نہیں ہیں وہ عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کا جائزہ لیں؟ جسٹس منصور کا مزید کہنا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور اس پر کسی کو بھی اعتراض اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ اکثریتی فیصلہ تو سنا دیا گیا ہے لیکن اس میں اس بات کا کہیں بھی جائزہ نہیں لیا گیا کہ پارلیمنٹ نے غلط کیا کیااور کہاں غلطی کی۔

اگر اس کیس کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کی بات کی جائے تو بظاہر تو ان کی عدالتی فتح ہوئی ہے اور عمران خان صاحب کی جانب سے جاری کردہ کیس کا فیصلہ ان کے حق میں آ گیا ہے۔ اس فتح پر خوشیاں منانا بھی ان کا اور ان کی پارٹی کا حق ہے لیکن کیا ایسا تو نہیں کہ ان کی یہ تمام خوشیاں اور جشن عارضی ثابت ہونے والے ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہی فیصلہ ان کے لیے نئے مسائل اور پریشانیوں کا پیغام لانے والا ہے۔

عمران خان صاحب سے تو کافی عرصہ سے ان کے رشتہ داروں اور وکیلوں کے علاوہ کسی کی ملاقات ہوئی ہی نہیں۔ یہی لوگ خان صاحب کے ثابت قدم اور دلیر ہونے کی خبریں میڈیا کو دیتے ہیں اور وہ انہیں جوں کا توں جاری بھی کر دیتا ہے۔ لیکن حقیقت شائد اس کے برعکس ہے۔ آزاد زرائع تو کہتے ہیں کہ خان صاحب کی دلیری اور ثابت قدمی مکمل طور پر جواب دے چکی ہے۔ اور وہ حالات سے اس قدر تنگ ہیں کہ کسی بھی قیمت پر جیل سے باہر آنا چاہتے ہیں۔

ایک طرف تو یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف نیب کا پرانا قانون بحال ہو نے کا مطلب  خان صاحب کو اگر اس وقت سمجھ نہیں آ رہا تو بہت جلد سمجھ آ جائے گا، یعنی کرپشن کے مقدمات میں نوے دن کا جسمانی ریمانڈ اور اس دوران ضمانت کی بھی کوئی گنجائش نہیں اوپر سے نیب نے صرف الزام لگانا ہے۔ آپ کو اپنی بے گناہی خود ہی ثابت کرنا ہے۔

نوّے کی دہائی میں جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں اپنے ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان عوام کی خوشی دیدنی تھی۔ گلی گلی مٹھائیاں بانٹی گئیں اور جشن منایا گیا۔ اس موقع پر کسی یورپی اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپنے والے ایک آرٹیکل کا جملہ ابھی تک مجھے یاد ہے۔ لکھنے والے صاحب نے ایٹمی دھماکوں کے ردعمل میں پوری دنیا کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ہونے والے متوقع سلوک کے تناظر میں لکھا تھاکہ، ’یہ عجیب لوگ ہیں جو اپنی متوقع تباہی پر خوشیاں منا رہے ہیں‘۔

عمران خان صاحب کا حساب کتاب بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ یعنی آج جن باتوں پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں کل اسی پر ان کی جانب سے رونا دھونا مچ جائے گا۔ جسٹس بندیال بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مراعات کو انجوائے کر رہے ہوں گے اور چاہتے ہوئے بھی کسی کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ یعنی یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ عمران خان کا یہ پتہ بھی الٹا پڑ گیا ہے اور اس مرتبہ بھی ان کی اپنی ہی چال ان کے لیے ریلیف کے بجائے مسائل لے کر آئے گی۔

تبصرے بند ہیں.