حضرت بلالؓ کی دعا اور ہم

123

حضرت بلالؓ بن رباح جنہوں نے 22 سال تک اس فضا میں سانس لیا جس میں سرکارؐ کے سانسوں کی مہک تھی امیہ کی غلامی سے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حکم سرکارؐ پر رہائی دلائی۔ ساتویں یا نویں مسلمان تھے۔ شکم مادر میں تھے کہ والدین حالات کی وجہ سے غلامی میں چلے گئے۔ ان کے والدین آزاد تھے مگر یہ ایک غلام کے گھر پیدا ہوئے۔ غلامی سے دمشق کی حکمرانی تک کا سفر، سرکارؐ اور حضرت ابو بکرؓ کی تربیت نے کیسا گوہر بنایا ہو گا، ان کی زندگی کی ساعتوں سے تمام امت واقف ہو گی۔ پتہ نہیں کیوں جب بھی میں حضرت بلالؓ کا ذکر کرتا ہوں تو اپنے آپ کو آنسو میں بدلتا ہوا پاتا ہوں۔ آقا کریمؐ کا ئنات میں جن سے بڑی کوئی ہستی نہیں کے انقلابی پہلو پر غور فرمائیں کہ جب فیصلہ کیا گیا کہ انسانی آواز کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جائے تو اذان کے لیے حضرت بلالؓ کا انتخاب محض حسن اتفاق اور نہ ہی اس وجہ سے تھا کہ ان کی آواز میں سوز و گداز کی شیرینی تھی بلکہ وہ تو امیہ کی غلامی اور تشدد کے دوران زبان پر کوئلے رکھے جانے کی وجہ سے زبان کی لکنت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ بہت بڑا انقلاب اور حکمت رسولؐ یہ تھی کہ ایک ابن غلام حبشی صحابیؓ جن کے پاس دنیاوی مال و متاع صفر تھی کی آواز پر، اسلام لانے سے پہلے بڑے بڑے سورما جو بعد ازاں مسلمان اور صحابی رسول کے درجے پر فائز ہوئے سردارانِ قبائل، جنگجو بہادر، امیر زادے، غریب، بوڑھے اور نوجوان سب کے سب، نماز کے لیے مسجد کا رخ کرتے۔ انہی حضرت بلالؓ کی دعا جو رہتی دنیا تک مظلوموں کی دعا اور ظالموں کی اصلاح کے لیے ایک نادر نمونہ ہے۔ فرماتے ہیں جب رسولؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا، رخصت کرتے وقت انہیں سب سے بڑی نصیحت یہ کی تھی: ”معاذ: مظلوموں کی بددعا سے ڈرتے رہنا۔ یاد رکھنا کہ ان کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا“۔ لیکن ظالم شاید، یہ نکتہ نہیں سمجھتے۔ فرماتے ہیں آج میں ضعیف اور قریب المرگ ہوں لیکن آج بھی ظلم پر میرا خون کھول اُٹھتا ہے۔ مجھے ظلم سے بہت نفرت ہے۔ میں بلالؓ جس نے بہتوں سے زیادہ ظلم سہے ہیں ظلم سے محفوظ رہنے کے لیے دعا مانگتا رہتا ہوں۔ بلال حبشیؓ کی یہ دعا ہے ”یا اللہ! ظالم کو مجبور کر دے کہ وہ اپنے آپ کو اُس بدن میں دیکھے جس پر وہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ یا اللہ! غلط فیصلے کرنے والوں کو اپنے فیصلوں کے نتیجے خود بھگتنا پڑیں۔ یا اللہ! کوئی منصف قانون کے معاملے میں من مانی نہ کرے کیونکہ دنیاوی قانون بھی تیری رحمت ہی سے بنے ہیں۔ یا اللہ! ہر ظالم کو اُس کے ظلم سے دہری سزا دے۔ یا اللہ! ظالم کو اسی وقت سزا دے جب وہ ظلم کر رہا ہو“۔ جب مکہ میں تھے تو قریش کے لیے ہدایت اور ظلم سے باز رہنے کی دعا مانگتے کہ قریش ظلم سے باز رہیں۔ آج چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ ہوا مجھے لگتا ہے جیسے یہ دعا حضرت بلالؓ نے آج کے حالات میں وطن عزیز کے لیے مانگی ہے۔ کیا خوب صورت صحابیؓ ہیں کیا زبردست نمائندگی کی ہے مظلوموں کی اور کیا کمال سدباب مانگا ہے ظالموں کا۔
ظلم کیا ہے ہر وہ عمل ظلم ہے جو انصاف نہیں ہے، جو حق نہیں ہے۔ چیزوں کا صحیح مقام پر نہ ہونا بھی ظلم ہے اور انسانوں کے درمیان میرٹ روا نہ رکھنا بھی ظلم ہے۔ سرکاری عہدے، حکومتی حیثیت کو اپنی ذاتی حیثیت اور طاقت سمجھتے ہوئے اپنی پسند و نا پسند کے ساتھ استعمال کرنا بدترین ظلم ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر میرے ہاتھ میں قلم ہے اور حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لیے لکھتا ہوں وہ نا قابل معافی ظلم ہے۔ 4 منٹ کی فیس اگر کوئی ڈاکٹر 4000 روپے لے اور مریض کی بات بھی نہ سنے تو کیا یہ ظلم نہیں۔ ٹیچر سکول کے بجائے ٹیوشن، ڈاکٹر سرکاری ہسپتال کے بجائے پرائیویٹ کلینک پر زیادہ توجہ دے تو کیا یہ ظلم نہیں۔ جسٹس افتخار چودھری کا بیٹا ایک مقدمہ میں ملزم تھا، ملزم کی طرف سے جب بھی بیان صفائی آتا تو کہتا کہ میں شکل سے مجرم لگتا ہوں۔ کیا شکل سے مجرم نہ لگنا معصوم ہونے کیلئے کافی دلیل ہے۔ اسی چیف جسٹس نے وزیر اعظم تو گھر بھیج دیا مگر اس کے اپنے بیٹے کو ایک منٹ کی سزا نہ ہوئی۔ کیا انصاف ایک پہیلی اور معمہ نہیں بن چکا، ہر سطح کے ظلم نے ہمارے معاشرے کو تماشا بنا دیا مگر تماشا کب تماشائی کو دیکھ سکتا ہے۔ وطن عزیز میں سیاسی، معاشی اور سماجی حالات ہمیشہ ایسے ہی رہے ہیں کہ چند ماہ رہ گئے نگران حکومت جانے والی ہے البتہ ڈکٹیٹر کے آنے پر لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے خاص حکم کا انتظار کرنا ہو گا یا پھر برائے نام جمہوریت کا دور ہوتا ہے۔ ہر دور میں اقربا پروری، پسند و ناپسند اور مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ اب کرپشن ہی کارکردگی سمجھی جاتی ہے۔ بات ظلم کی ہو رہی تھی۔ ظلم یہی نہیں کہ کسی نے دُرہ پکڑا ہوا ہے اور دوسرے کی ننگی پیٹھ پر مار رہا ہے۔ ویسے بھی کوڑے انسان کی روح کو نہیں چھو سکتے مگر ہمارے ہاں تو انسان کے ساتھ روحوں پر بھی ظلم جاری ہے۔ ظلم تو یہ بھی ہے اگر کوئی مزدور اور ملازم اپنے آجر کے ساتھ دیانتداری سے کام نہ کرے اور ظلم یہ بھی ہے کہ بہو، بیٹی، بیٹے، بہن، بھائی، دوست کو دل آزاری والا طنز ہی کر دیا جائے۔ ہمارے رویے ہی ظلم ہیں۔ حکومتی سطح پر میرٹ کے برعکس تعیناتیاں کر دی جائیں۔ کرکٹ بورڈ کی چیئر مین شپ، پیمرا کی چیئر مین شپ، پی ٹی وی کی چیئر مین شپ اور دیگر اداروں کی چیئر مین شپ جو کہ سیدھی سیدھی سیاسی رشوت ہے کیا یہ قوم کے ساتھ ظلم نہیں ہے۔ مجھے تو ٹی وی چینل آن کرتے ہی مسلسل اور مکروہ نظر آنے والے چہرے بھی گھروں میں بیٹھے ٹی وی بینوں پر ظلم لگتا ہے۔ ذرا قومی اور ہر سطح کی ہر طرح کی قیادت پر نظر تو دوڑائیں کیا یہ قوم کے ساتھ ظلم نہیں ہے۔ ماتحت عدلیہ جسٹس منیر سے مولوی مشتاق اور آگے چل کر جسٹس افتخار سے جسٹس بندیال تک، بیورو کریسی، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے رویے، میڈیا پرسنز کی جانبداری، انتظامیہ کی غلام گردشیں سب کی سب ظلم نہیں ہے۔ حضرت بلالؓ کی دعا آج کے حالات کے لیے اتنی ہی موزوں اور متعلقہ ہے جتنی 1400 سال پہلے زمانہ جاہلیت میں کفار کے مظالم کے وقت تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے حضرت بلالؓ نے اس میں وطن عزیز کے مظلوموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر مظلوم مسلمانوں کے حق میں دعا مانگی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت بلالؓ کی دعا امت مسلمہ اور ہر مظلوم کے حق میں قبول فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں.